• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 600036

    عنوان:

    ركعتوں میں بار بار شك ہو تو كیا كرے؟

    سوال:

    نماز پڑھنے کے دوران یہ بھول جاتاہوں کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں، شاید کہ کوئی نماز ایسی جو جس میں گنتی یاد رہتی ہو، اور یہ معاملہ صرف اور صرف نماز ہی میں ہوتاہے ، ویسے یاد داشت الحمد للہ ٹھیک ہے، پوری کوشش کے باوجود اکثر یہ بھول تیسری اور چوتھی رکعت میں ہوتی ہے ، کبھی ایک رکعت ملا کر سجدہ سہو کرلیتاہوں اور کبھی نماز دہرا لیتاہوں ، نماز دہرانے میں بھی اکثر ایسا ہی ہوتاہے ، کبھی ایک نماز سجدہ بھی دو دو یا تین تین ہوجاتے ہیں ، کیا ایک نماز میں دو یا تین سجدہ سہو ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟ کیا نماز کے دوران سجدہ کی جگہ کے پاس کوئی کنکری رکعت کی تعداد کے برابر رکھ لیا کریں اور سجدہ کے بعد اس کو ہاتھ سے ہٹا دیا کریں تاکہ رکعت کی اس طرح سے گنتی ہوجائے اور بھول سے بچا جاسکے، نماز سے پہلے میں اعوذ باللہ، بسم اللہ ، استغفر اللہ ، لا حولہ ، سب پڑھ لیتاہوں کہ شیطان نہ ورغلا ئے ، پھر بھی بھول ہوجاتی ہے ، میں بہت پریشان ہوں ، کیا کاروں، میرے حق میں دعا بھی کریں اور حل بھی بتائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 600036

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:54-15T/sd=3/1442

     (۱) اگر اکثر شک کی حالت پیش آتی ہے ، تو غور و فکر کرنے کے بعد جس جانب ذہن کا رجحان غالب ہو، اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے ، مثلا: اگر تین اور چار میں شک ہوا اور چار رکعت کا ظن غالب ہو، تو چارہی رکعات مان کر عمل کرنا چاہیے اور اگر غور و فکر کے باجود کسی جانب غالب گمان نہ ہو، تو کم رکعت پر بناء کرنی چاہیے ، مثلا: اگر تین اور چار میں شک ہو ا، تو تین رکعات مان کر چوتھی رکعات پوری کرنی چاہیے ؛ البتہ تیسری اور چوتھی دونوں رکعات پر قعدہ کرنا ضروری ہے اور آخر میں سجدہ سہو بھی لازم ہے ۔

    وإن کثر الشک" تحری و "عمل" أی أخذ "بغالب ظنہ" لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: "إذا شک أحدکم فلیتحر الصواب فلیتم علیہ" وحمل علی ما إذا کثر الشک للروایة السابقة "فإن لم یغلب لہ ظن أخذ بالأقل" لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: "إذا سہا أحدکم فی صلاتہ فلم یدر واحدة صلی أو اثنتین فلیبن علی واحدة فإن لم یدر اثنتین صلی أو ثلاثا فلیبن علی اثنتین فإن لم یدر ثلاثا صلی أو أربعا فلیبن علی ثلاث ویسجد سجدتین قبل أن یسلم" یعنی للسہو۔ قولہ: "فلیتحر الصواب" أی عندہ وقولہ فلیتم علیہ محمول علی ما إذا وقع تحریہ علی الأقل ویحتمل أن المراد أنہ یتمہا ولو بما بقی منہا کالتشہد والسلام قولہ: "فإن لم یغلب لہ ظن" بأن لم یترجح عندہ شیء بعدالطلب کما فی الکافی أو لم یکن لہ رأی کما فی الہدایة قولہ: "أخذ بالأقل" فلو شک فی ذوات الأربع أنہا الأولی أم الثانیة وبنی علی الأقل یجعلہا أولی ثم یقعد لجواز أنہا ثانیة فتکون القعدة فیہا واجبة ثم یقوم فیصلی رکعة أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم ثانیة ثم یقوم فیصلی رکعة أخری ویقعد لجواز أنہا رابعة ثم یقوم فیصلی أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم رابعة والقعدة علی الثالثة والرابعة فرض وکذلک لو شک أنہا الثانیة أو الثالثة ولم یغلب علی رأیہ شیء یقعد فی الحال لجواز أنہا ثانیة ثم یقوم فیصلی رکعة أخری ویقعد لجواز أنہا رابعة ثم یقوم فیصلی رکعة أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم رابعة وعلی ہذا الثنائی والثلاثی کذا فی الذخیرة وتمامہ فی المطولات۔( حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:۴۷۷/۱، فصل فی الشک، دار الکتب العلمیة، بیروت )

    (۲) نماز میں ایک سے زائد غلطی کی صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کافی ہے ، سجدہ سہو کا تکرار مشروع نہیں ہے ۔

    قال ابن عابدین: (قولہ وإن تکرر) حتی لو ترک جمیع واجبات الصلاة سہوا لا یلزمہ إلا سجدتان بحر.۔ ( رد المحتار: ۸۰/۲، باب سجود السہو، دار الفکر، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند