• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602343

    عنوان:

    امام کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کو امام بنانا

    سوال:

    علماء کرام اور مفتیان عظام، اگر ایک مسجد میں دو امام ہوں(زید اور عمر) زید دو وقت کی نماز پڑھاتا ہے یعنی فجر اور عشاء اور عمر بقیہ نمازیں پڑھاتا ہے ، اب مسئلہ یہ ہے کہ فجر کی نماز میں زید کی موجودگی میں زید کی اجازت کے بنا امام ثانی (عمر) نماز کے لئے کسی دوسرے شخص کو امام بناتا ہے تو کیا اس طرح نماز درست ہو جائے گی۔ جواب مرحمت فرمادیں۔

    جواب نمبر: 602343

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:458-375/L=6/1442

     مذکورہ بالا صورت میں اگر عمر کسی کو امام بنادے تو نماز اگر چہ درست ہو جائے گی ؛البتہ جب فجر کی نماز زید کے ذمہ ہے تو عمر کو یہ حق نہیں کہ وہ زید کی اجازت کے بغیر کسی اور کو امام بنائے ۔

    ( ولا یؤمن الرجل الرجل فی سلطانہ ) أی: فی مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو فی محل یکون فی حکمہ، ویعضد ہذا التأویل الروایة الأخری فی أہلہ، وروایة أبی داود فی بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلی خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعة شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعة وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل فی سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنة، وخلع ربقة الطاعة، وکذلک إذا أمہ فی قومہ وأہلہ أدی ذلک إلی التباغض والتقاطع، وظہور الخلاف الذی شرع لدفعہ الاجتماع، فلا یتقدم رجل علی ذی السلطنة، لا سیما فی الأعیاد والجمعات، ولا علی إمام الحی ورب البیت إلا بالإذن. قالہ الطیبی ․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 3/ 863)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند