• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 65035

    عنوان: جہری نمازوں میں مقتدی کا زور سے آمین کہنا؟

    سوال: فجر ، مغرب اور عشاء کی نماز میں امام صاحب کے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن پر مقتدی زور سے آمین کہتے ہیں۔ براہ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 65035

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 716-704/Sn=8/1437 امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں یہ مسئلہ مستنبط کیا کہ امام جب ”غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن“ پڑھ چکے تو شاملِ جماعت مقتدی آہستہ سے آمین کہیں گے، زور سے آمین کہنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تخریج کے مطابق خلافِ سنت اور خلاف افضل ہے، بعض دوسرے ائئمہ اورغیرمقلدین زور سے آمین کہنے کو راجح قرار دیتے ہیں؛ اس لیے حنفی مقتدیوں کو تو ”آمین“ آہستہ ہی کہنا چاہیے، مسلکِ احناف کے دلائل کے لیے دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے جاری شدہ ایک تفصیلی فتوی منسلک ہے، اسے ملاحظہ کرلیں۔ از: محمد اسد اللہ غفرلہ، معین مفتی 10/7/1437 الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ------------------------ مقتدی آمین بالسر کہے یا بالجہر (احادیث و آثار کی روشنی میں میں) سوال:﴿۳۵﴾کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں :نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آمین آہستہ کہی جائے یا بلند آواز سے ؟ہمارے ایک دوست سعودیہ عربیہ سے آئے ہیں، وہاں کے ماحول سے کافی متاثر نظر آتے ہیں ،آپ احادیث کی روشنی میں حنفیہ کا موقف بتائیں، تاکہ ان کے شکوک وشبہات دور ہوسکیں۔ المستفتی :صفوان احمد (۱۳۵۵/د ۱۴۳۲ئھ) الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے ،علماء کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ سری اور انفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، جہری نمازوں میں اختلاف ہے ،حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں آہستہ آمین کہی جائے گی (۱)،حنفیہ کا یہ موقف قرآن وحدیث سے موٴید ہے ،ذیل میں وہ دلائل درج کئے جاتے ہیں : لفظ”آمین“ایک دعا ہے، جس کے معنیٰ ہیں :اے اللہ! تو قبول فرما(۲)، امام بخاری علیہ الرحمة حضرت عطاء کے حوالے سے لکھتے ہیں:الآمین دعاء،آمین ایک دعا ہے (بخاری :۱/۱۰۷، باب جہرالامام بالتأمین) آیت قرآنیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا میں اصل اور افضل آہستہ مانگناہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ادعوا ربکم تضرعا وخفیة (اعراف:/۵۵)، ترجمہ:پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے ، حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعا مانگی تھی،إذنادی ربہ نداءً خفیا(مریم:۳)، جب پکارا اس نے اپنے رب کو چھپی آواز سے ؛اس لیے آمین کو بھی آہستہ کہنا افضل اور بہتر ہوگا ۔ مذکورہ بالا آیت قرآنیہ کی روشنی میں، آمین کا آہستہ کہنا راجح معلوم ہوا ۔ذیل میں وہ احادیث وآثار نقل کیے جاتے ہیں، جن سے آمین آہستہ کہنے کا حکم مستفاد ہوتا ہے : (۱) عن أبي ہریرة أن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال:إذا قال الإمام: غیر المغضوب علیہم ولا الضّالین، فقولوا:آمین(بخاری:۱/۱۰۸،جہرالمأموم بالتأمین، الرقم:۱۵۶) ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو،اس حدیث میں مقتدی کے آمین کہنے کو امام کے ولا الضالین کہنے پر معلق کیاہے، نہ کہ امام کے آمین کہنے پر ،اس سے امام کا ”آمین“آہستہ کہنا معلوم ہوا، جسے مقتدی نہیں سن سکیں گے ،البتہ ولا الضالین کو جہرکی وجہ سے سب مقتدی سن لیں گے؛اسی وجہ سے امام کے ولا الضالین کہنے پر مقتدیوں کو آمین کہنے کا حکم ہوا (اوجز:۱/۲۵۲) ، اس بات کی تائید نسائی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، جس کو علامہ نیموی نے صحیح کہا ہے ، جس میں ”وإن الإمام یقول آمین“ کا اضافہ ہے، اس سے امام کے آہستہ آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے؛کیوں کہ امام اگر جہراً کہتا تومقتدیوں کو خودہی پتہ چل جاتا اس جملے کے کہنے کی حاجت ہی نہ تھی ۔ (۲) عن علقمة بن وائل، عن أبیہ، أنّ النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین، فقال:اٰمین وخفض بہا صوتہ (ترمذی :۱/۳۴، اباب ما جاء في التأمین ،الرقم:۲۴۸) ترجمہ:وائل بن حجر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کا عمل )نقل کرتے ہیں کہ آپ نے غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین پڑھا توآمین آہستہ آواز سے کہی۔ (۳) عن أبي ہریرة أن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال:إذا قال الإمام ولا الضالین، فقولوا:آمین، فان الإمام یقولہا۔(رواہ أحمد والنّسائي والدّارمي وإسنادہ صحیح (أوجزالمسالک:۱/۲۵۲، التامین خلف الإمام، ط: یحیویہ سہارن پور) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب امام ولاالضالین کہے توتم آمین کہو،کیوں کہ امام بھی اسے کہتا ہے ،اس حدیث کوامام احمد ،نسائی،دارمی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے ۔ ”فإن الإمام یقولہا“سے پتہ چلتا ہے کہ امام آمین آہستہ کہے گا ورنہ اس جملے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی، امیر المومنین حضرت عمر فاروق اورعلی رضی اللہ عنہما آہستہ آمین کہتے تھے ”عن أبي وائل قال:لم یکن عمر وعلی یجہران ببسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم ولا التعوذ ولا آمین“ (طحاوی:۱/۹۹) ترجمہ:حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما تسمیہ تعوذ اور آمین بالجہر نہیں کہتے تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود  بھی آہستہ آمین کہتے تھے ”عن أبي وائل قال:کان علی وعبد اللّٰہ لا یجہران ․․․․․․․․․․․ بالتامین“(۳) (المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتب العلوم والحکم)۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں آہستہ آمین کہی جائے گی ،جہر کے سلسلے کی جوروایتیں آئی ہیں، ان میں سب سے قوی روایت حضرت وائل بن حجر کی ہے جس میں آمین بالجہر کی صراحت ہے :(جب کہ یہ روایت بھی اپنے مستدل پر تام نہیں) وقرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین، فقال آمین ومد بہا صوتَہ(ترمذی:۲۴۸) ترجمہ:آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضّالین پڑھ کر آواز تیز کرتے ہوئے آمین کہی ، اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ :اس میں آمین جہراً کہنا تعلیماً ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مستقل عمل نہیں ؛چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت ہے :ما أراہ إلایعلمنا میرا گمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تعلیم دے رہے تھے۔ (اعلاء السنن :۲/۱۸۲)، تعلیم پر محمول کرنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ کرام روزانہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے تھے ،اگر آمین بالجہر کا عام معمول ہوتا تو اس کو بیان کرنے والی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ،مگر صورتِ حال یہ ہے کہ صحیحین کی کسی روایت میں آمین بالجہر کا صریح تذکرہ موجود نہیں، صحیحین کے علاوہ جن احادیث میں آمین بالجہر کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک حدیث حضرت وائل بن حجر t کی ہے جس کے بارے میں ابھی معلوم ہوا کہ آمین جہراً کہنا تعلیماً ہوا ہے ،نیز اضطراب کی وجہ سے حضرت وائل کی حدیث ضعیف ہے ،تفصیل اعلاء السنن: ۲/۲۲۳میں مذکور ہے ، اس کے علاوہ جو دیگر روایات ہیں، وہ بھی ضعف اور علت سے خالی نہیں (۴)۔ مذکورہ بالا احادیث نبویہ اور آثارِ صحابہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ احناف کا آہستہ آمین کہنے کا مذہب قوی دلائل سے ثابت اور مبرہن ہے ،موجودہ زمانہ کے اہلِ حدیث (غیرمقلدین)جو الزام لگاتے ہیں کہ احناف آمین کے سلسلے میں احادیث کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان کا یہ قول سراسر غلط اور ذخیرہٴ احادیث سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دارالعلوم دیوبند ۲۵/۷/۳۲ھ الجواب صحیح :حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخر الاسلام ، وقار علی غفر لہ حواشی ------------------------------------------------------- (۱) والثناء والتعوذ والتسمیة والتأمین وکونہن سِرّاً۔ الدّرّالمختار۔ واضح رہے کہ جہری نمازوں میں آمین کے آہستہ یا بلند آواز دونوں طریقے سے کہنے کے جواز پر سب کا اتفاق ہے؛ البتہ احناف ومالکیہ کے نزدیک آہستہ کہنا زیادہ بہتر ہے اور شوافع وحنابلہ کے یہاں زور سے کہنا زیادہ بہتر ہے ؛ لہذا اختلاف اولیٰ وغیراولیٰ کا ہے، جواز و عدم جواز کا نہیں۔ (۲) ففي مجمع البحار: معناہ: استجب لي: ۱/۱۰۵۔ (۳)صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی زیادہ تعداد آمین آہستہ کہتی تھی، امام طبری فرماتے ہیں: ”إن أکثر الصّحابة والتّابعین- رضياللّٰہ عنہم -کانوا یخفون بہا“ (اعلاء السنن: ۲/۲۲۳)، البتہ صغارِ صحابہ کے زمانے میں خاص طور سے حضرت عبد اللہ بن زبیر نے جہراً آمین کہنے کا رواج ڈالا، اُن کا دارالسلطنت مکہ تھا؛ اس لیے مکہ مکرمہ میں جہراً آمین کہنا رائج تھا؛ اسی وجہ سے امام شافعی نے - جن کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی - آمین بالجہر کو اختیار کیا؛مگر مدینہ منورہ کی صورت حال دوسری تھی چنانچہ امام مالک نے -جن کے یہاں تعاملِ مدینہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے - سراً آمین کہنے کو اختیار فرمایا۔ (ادلہٴ کاملہ: ۴۳) (۴) چنانچہ محدث ابو بشر دولابی نے ”کتاب الأسماء والکنی“ میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے: فقال آمین یمد بہا صوتہ ، ما أراہ إلا لیُعَلِّمِنَا۔ (معارف السنن: ۲/۴۰۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند