• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 600060

    عنوان: امام و مقتدی كے درمیان ناراضگی

    سوال:

    سوال: مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسجد کے امام صاحب( قاری جی) سے مقتدی ناراض ہیں اور وجہ یہ ہے کہ امام صاحب سے کچھ لوگوں نے پیسے لے رکھے تھے تو امام صاحب نے عید الاضحٰی کے روز یہ بات کہی کہ میرا سب پر احسان ہے اور فلاں فلاں پر میرے پیسے ہیں اس بات سے مقتدی ناراض ہو گئے کہ انہوں نے سب پر احسان کی بات کیوں کہی.. اس کے ساتھ ایک پرانا معاملہ بھی اٹھ گیا ہے وہ یہ تھا کہ اب سے دو سال پہلے امام صاحب اور ایک دو آدمی مسجد کی صفائی کر رہے تھے کہ مسجد کے کولر سے ایک موبائل ملا جس کو امام صاحب نے اٹھاکر اپنے ڈیسک میں رکھ لیا نہ اس کا اعلان کیا نہ کسی سے کہا پھر کچھ دنوں بعد اسکو بیچ دیا اور رقم خود رکھ لی اس رقم کا بھی اعلان نہیں کیا.. اس بات کے سامنے آنے سے لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور کچھ لوگوں نے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھ کر اپنی الگ جماعت شروع کردی ہے تو اب مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ کہ ہم مقتدی حضرات کیا کریں کیا ان قاری جی کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں یا انکو امامت سے معزول کردیں؟ نیز جو لو اپنی الگ جماعت کررہے ہیں انکا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟؟ جو بھی قابل عمل مسئلہ ہو رہنمائی فرمائیں۔ جواب نمبر: 179716 03-Sep-2020 : تاریخ اشاعت Fatwa : 11-10/M=01/1442میرا سب پر احسان ہے امام صاحب نے یہ بات کیوں اور کس پس منظر میں کہی؟ امام صاحب اس کی کیا وجہ بتاتے ہیں؟ اور موبائل والے معاملے میں امام صاحب کا بیان کیا ہے ؟ صاحب معاملہ سے مکمل بیان و وضاحت لکھواکر منسلک کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کچھ لوگوں کی ناراضگی بجا ہے یا بلاوجہ ہے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب کے بعد وضاحت یہ ہے کہ میری خود امام صاحب سے تفصیلی بات ہوئی ہے چونکہ میں بھی امام ہوں اسلئے مجھے ساری باتیں بے تکلف بتلائی ہیں احسان والی بات کا پس منظر یہ تھا کہ چونکہ میں نے ( قاری صاحب نے ) کافی لوگوں کو پیسے بطور قرض دے رکھے ہیں اور ان سے کوئی تقاضہ بھی نہیں کیا ھے یہ میرا ان مقتدیوں پر احسان ھے اسلئے میں نے یہ احسان کی بات کہی ہے دوسری بات کی وضاحت میں قاری جی نے کہا ہے کہ واقعہ یہی تھا کہ صفائی کے دوران ایک موبائل فون ملا تھا جسکو میں نے اپنے پاس رکھا تاکہ جس کا ہو وہ لے جائے لیکن پانچ چھ مہینے کا عرصہ گزر گیا کوئی لینے نہیں آیا تو میں نے یہ سوچ کر کہ رکھا رکھا خراب ھو جائے گا میں نے پندرہ سو روپے میں بیچ دیا. اور اپنی ضرورت میں خرچ کر لئے ... دو تین آدمیوں کو میں نے خبر بھی کردی تھی.. اب ان لوگوں نے دیگر مقتدیوں کو بتاکر اس بات کو بڑھاوا دیا اور جو لوگ پہلے سے موقع کی تلاش میں تھے انہوں اس بات کو پھیلاکر لوگوں کو اکسایا کہ تم تو ایک چور کے پیچھے نماز پڑھ رہے ھو اس سے مقتدیوں میں نارضگی بڑھنی شروع ھوگء . یہ وضاحت ان قاری جی کی طرف سے تھی اب اس مسئلے کا حل کیا ھونا چاہیے .. شرع کی روشنی میں مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 600060

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 41-12T/M=02/1442

     مذکورہ وضاحت سے بات کسی حد تک واضح ہوگئی کہ امام صاحب نے احسان والی بات اس لیے کہی کہ انہوں نے لوگوں کو قرض دے کر احسان فرمایا ہے لیکن یہ بات اب بھی غیر واضح ہے کہ قرض تو کچھ ہی لوگوں نے لیا ہے تو پھر سب پر احسان کی بات کیسے کہی گئی، نیز احسان کرکے احسان جتانے کی ضرورت کیا پیش آئی، اور موبائل کو بیچ کر روپیہ غریبوں کو صدقہ کرنے کے بجائے امام صاحب نے اپنی ضرورت میں کیوں اور کس مجبوری میں خرچ کیا، اور باتوں کی بھی وضاحت آنی چاہئے تھی، بہرحال جو کچھ ہوا اس پر اب امام و مقتدی دونوں آپس میں معافی تلافی کرلیں، امام صاحب نے اگر بلاوجہ احسان جتایا ہے اور بغیر مجبوری کے موبائل کا روپیہ استعمال کیا ہے تو غلط کیا ہے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے اب ان کو چاہئے کہ لوگوں سے معاملہ صاف کرلیں اور جو روپیہ استعمال کرلیا ہے اس کو بتدریج غریبوں میں صدقہ کردیں اور جن مقتدیوں نے اِن باتوں کو دوسرے لوگوں میں پھیلاکر امام کے خلاف ناراضگی کا ماحوال قائم کیا ہے اور امام کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے ان پر بھی لازم ہے کہ امام سے معافی تلافی کرلیں اور صاف دل کے ساتھ امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا شروع کردیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند