• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 37901

    عنوان: نماز

    سوال: میں نے اپنے کالج کی لائبرری میں یہ کتاب پڑھی (فتویٰ یوسف القرضاوی جلد دوم ) جس میں سوال کچھ یوں تھا.. سوال :کوئی شخص طویل ڈیوٹی انجام دینے کے بعد سو جائے اور نماز کا وقت ہو جائے تو کیا اسکی بیوی کو چاہیے کی اس حالت میں اپنے تھکے ہوئے شوہر کو جگا دے یا چھوڈ دے ؟ جواب :اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ سوتے ہوئے شخص کو مرفوع القلم (قابل معافی ) قرا دیا جاتا ہے۔ اسلئے طویل ڈیوٹی انجام دینے کے بعد اگر کوئی شخص سوتا رہ گیا اور اس کی نماز چھوٹ گی تو وو قابل معافی ہے -نیند سے بیداری کے بعد فورن نماز ادا کر لے۔ بشرطیکہ اسے اپنی عادت نہ بنا لے۔ بیوی کے لئے ضروری نہیں کہ اپنے تھکے مانند شوہر کو نیند پوری ہونے سے قبل جگا دے، کیوں کہ یہ ا ن کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا صرف انسان تھکا ہے اسلئے اسے نماز جو کہ فرض ہے ،کے لئے اٹھانا نہیں چاہیے؟

    جواب نمبر: 37901

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 679-322/L=5/1433 بہتر اور مستحب یہ ہے کہ سوئے ہوئے آدمی کو جماعت کے وقت بیدار کردیا جائے تاکہ وہ جماعت سے محروم نہ رہے: عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحم اللہ رجلاً قام من اللیل فصلی وأیقظ امرأتہ فصلت فإن أبت نضج في وجہہا الماء رحم اللہ امرأة قامت من اللیل فصلت وأیقظت زوجہا فصلی فإن أبی نضجت في وجہہ الماء رواہ أبوداوٴد والنسائي: وقال ابن الملک وہذا یدل علی أن إکراہ أحد علی الخیر یجوز بل یستحب (مرقاة: ۳/۱۴۹) ذکر في التفسیر الکبیر تحت قولہ تعالی (وأمر أہلک بالصلاة واصطبر علیہا) وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد نزول ہذہ الآیة یذہب إلی فاطمة وعلي علیہما السلام کل صباح ویقول الصلاة وکان یفعل ذلک أشہرا (تفسیر کبیر: ۲۲/۱۱۸، سورہٴ طٰہ) سوئے ہوئے کو بیدار کرنا لازم وضروری نہیں ہے، لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سونے والا شخص نماز کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے سویا ہو، اور اگر وہ نماز کے وقت کے داخل ہونے کے بعد سویا ہو تو اب اس کو جگانا واجب ہے۔ فرع: لا یجب انتباہ النائم في أول الوقت ویجب إذا ضاق الوقت نقلہ البیري في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول وقال ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ إھ شامي زکریا: ۲/۱۳۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند