• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 604206

    عنوان:

    کسی کو شرک میں مبتلا كردیا تو توبہ كا طریقہ كیا ہے؟

    سوال:

    میرا سوال تھوڑا لمبا ہے ، جیسکا پسمنظر یہ ہے کی محمد کی پڑوسی پریہ ہے جس نے اسلام سے متاثر ہوکر چھپ کر اسلام قبول کر لیا، اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ روزانہ بت پرستی کرتی تھی لیکن اب چونکہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا تو وہ اب یہ نہیں کرنا چاہتی تھی، اس کو ڈر تھا کی کہیں اُسکے گھر والے اُسکے ایمان کو جان نہ جائے جس کی وجہ سے اُسکے ساتھ مار پیٹ یا اُس کو قتل نہ کر دیں، محمد نے کسی مولوی سے سنا تھا کہ جان بچانے کے لیے دکھاوے کی بت پرستی کر سکتے ہیں، تو اس نے پریہ کو یہ بتا دیا اور دونوں نے یہ طے کیا کہ جب تک کوئی ہجرت کا راستہ نہیں بنتا ایسے ہی دکھاوے کی بت پرستی کرتی رہے ، لیکن محمد کے دل میں یہ بات غلط لگتی تھی لیکِن اس نے دھیان نہیں دیا۔ کُچھ سال تک ایسا ہی چلتا رہا پھر پریہ کی شادی طے ہو گئی اور ہجرت کے بجائے پریہ نے یہ طے کیا کی وہ شادی کرکے اپنے خاوند کو سمجھائیگی کہ وہ اسلام قبول کرلے اور پہلے جیسے وہ دکھاوے کے لیے بت پرستی کرتی تھی اب بھی ویسے ہی کرے گی، جب تک اُس کا خاوند اسلام قبول نہیں کرتا اس پے سلمان نے کہا کہ جب کوئی راستہ نہ ہو تو دکھاوے کی بت پرستی کو اللہ معاف کرتا ہے لیکن اب تو تمہارے پاس ہجرت کا موقع ہے لیکِن پھر بھی وہ نہیں مانی۔ سلمان اس سے شادی کرنا چاہتا تھا تو اس نے ایک لڑکے کو مولوی بنا کر اسکو فتویٰ پہنچایا کی اگر کافر سے شادی کروگی تو اسلام سے باہر ہو جائیگی لیکن پھر بھی پریہ نے شادی کر لی۔ اس بات کو ۲سال بیت چکے ہیں، لیکن محمد کو دو باتیں پریشان کر رہی ہیں۔ ۱۔ محمد کو یہ لگتا ہے کی پریہ کو اس نے جو بت پرستی کی اجازت دی تھی اس سے اس نے پریہ کو شرک میں ڈھکیل دیا کیونکہ محمد نے احتیاط میں یہ فتویٰ دیا تھا جبکہ حدیثِ میں آتا ہے کی جب جبر کرکے کفریہ کلمہ کہلوایا جائے تو معاف ہے لیکِن یہاں تو کوئی جبر نہیں کر رہا تھا یہ کام تو بس احتیاطً کیا جا رہا تھا۔ اب محمد کو لگ رہا ہے کہ اُس کے غلط فتوے کی وجہ سے پریہ جو شرک کرے گی اور اُس کے نسلیں جو شرک کریں گی، اُس کے گناہِ جاریہ بھی محمد کو ملے گا۔ ۲۔ محمد نے ایک جھوٹے مولوی سے اس کو یہ فتویٰ دلوایا تھا کہ کافر سے شادی کرنے سے مسلمان اسلام سے باہر ہو جاتا ہے جبکہ ہر عالم یہ جانتا ہے کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے ۔ تو محمد نے اُس کے غلط فتویٰ دلوایا اور ہو سکتا ہے کہ وہ شرک سے باہر آ جاتی لیکن اب وہ شرک سے باہر آنے کے بجائے وہ ان سب کو ہی کرنے لگے ۔ تو سوال یہ تھا کہ کیا محمد سے گناہ ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو ان دونوں گناہوں کی معافی کیسے ملے گی ۔کبھی دل میں آتا ہے کہ پریہ کہ ایک دوست ہے اس سے بات کرکے جو غلط فتوے اس کو بتایا ہے پریہ کو اس سے آگاہ کر دیں، لیکِن اِس کام میں محمد کو ایک نامحرم سے بات کرنی پڑے گی اور اب وہ پریہ کے مسئلہ میں اب اور نہیں پڑنا چاہتا اور یہ بات اس کو پہونچ جائیگی بھی یا نہیں اِسکا بھی امکان نہیں ہے ۔ تو برائے مہربانی مُجھے اِس گناہ کی معافی کی کوئی تدبیر بتائے اور اس ذہنی تکلیف سے نکلنے میں میری مدد کرے ۔

    جواب نمبر: 604206

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:841-140T/L=11/1442

     جان ، مال ، یا عزت و آبرو کے واقعی اور حقیقی خطرے کے وقت زبانی طور سے کفریہ قول و عمل کرنے کی شرعاً گنجائش ہے بشرطیکہ ایمان پر دل مطمئن ہو؛لیکن محض احتیاط کے طور پر کفریہ قول و عمل ہرگز جائز نہیں ، بلکہ اگر کوئی اپنے اختیار سے ایسا کرتا ہے، تو وہ دائرہ ایمان سے خارج اور کافر ہوجاتا ہے؛ البتہ صورت ِ مسؤولہ میں یہ لڑکی چونکہ ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، اسلامی معاشرے اور اسلامی ماحول سے بھی دور ہے اس کو کفریہ اور شرکیہ اعمال کا علم بھی ابھی نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر وہ ایسا کفریہ عمل کرتی ہے ، تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، مزید برآں جبکہ وہ آپ کے مسئلہ بتانے کی وجہ سے وہ اس کو شرعاً جائز بھی سمجھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ آپ کا اس طرح ان کو پوری صورتحال سمجھے اور جانے بغیر مسئلہ بتانا یا ان کو عمداََ غلط مسئلہ بتانا یہ بڑی جرء ت اور سخت گناہ کی بات ہے ، احادیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے، بغیر تحقیق کے غلط مسئلہ بتانے کی وجہ سے اگر کوئی عمل کرتا ہے، تو اس کے عمل کا گنا ہ بھی اس غلط مسئلہ بتانے والے کو ملتا ہے?۔ اس لیے آپ ان نومسلمہ خاتون کو بذریعہ خط ، یا میسیج ، یا براہِ راست کال کرکے صحیج صحیح تمام مسائل سے آگاہ کردیں ? اور بہتر ہیکہ پہلے آپ کسی معتبر عالم سے تمام مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر ان کو کسی بھی جائز ذریعہ سے سمجھادیں اور پہلے آپ سے جوگناہ ہو گیا ہے اس پر صدقِ دل سے توبہ کرلیں ، اللہ بڑا معاف فرمانے والا ہے ۔

    ومن تکلم بہا عالما عامدا کفر عندالکل، ومن تکلم بہا اختیارا جاہلا بأنہا کفر ففیہ اختلاف، والذی تحرر أنہ لا یفتی بتکفیر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ اختلاف ولو روایة ضعیفة،( البحر الرائق شرح کنز الدقائق للنسفی (11/ 342) وأجمع المسلمون علی أن من جحد وجوب الصلاة، فہو کافر مرتد، لثبوت فرضیتہا بالأدلة القطعیة من القرآن والسنة والإجماع، کما أبنت. ومن ترکہا تکاسلاً وتہاوناً فہو فاسق عاص، إلا أن یکون قریب عہد بالإسلام، أو لم یخالط المسلمین مدة یبلغہ فیہا وجوب الصلاة.( الفقہ الإسلامی وأدلتہ (1/ 577) وفی آخر الیتیمة ظن لجہلہ أن ما فعلہ من المحظورات حلال لہ : فإن کان مما یعلم من دین النبی صلی اللہ علیہ و سلم ضرورة کفر و إلا فلا(الأشباہ والنظائر - حنفی (ص: 335) فمن أظلم ممن افتری علی اللہ کذبا لیضل الناس بغیر علم إن اللہ لا یہدی القوم الظالمین(القرآن ) أورد أبو داود حدیث أبی ہریرة مرفوعاً: (من أفتی بغیر علم کان إثمہ علی من أفتاہ) یعنی: إذا کانت الفتوی بجہل فالمفتی آثم، والذی عمل بہا علی خلاف الصواب یتحمل الذی أفتی إثمہ؛ لأنہ ہو المتسبب فی کونہ عمل عملاً علی خلاف السنة وعمل عملاً لیس وفق ما جاء عن اللہ وعن رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم. وقولہ: (ومن أشار علی أخیہ بأمر یعلم أن الرشد فی غیرہ فقد خانہ) یعنی: أنہ عارف المصلحة للمسترشد والمستشیر ولکنہ خانہ ودلہ علی شیء خلاف المصلحة، فإذا سألہ عن أمر ویعلم أن الرشد للمستشیر فی شیء ولکنہ حاد وأشار علیہ بشیء لیس برشد فإنہ یکون خائناً فی ذلک.( شرح سنن أبی داود - عبدالمحسن العباد (ص: 2)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند