• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 30379

    عنوان: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے ، والد ہ کو بطور مہر پروپرٹی (گھر) دینا ان کی وصیت تھی۔ اگر والدہ اس پروپرٹی (گھر) کو ہم تین بھائیوں اور پانچ بہنوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہئے تو ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
    (۲) کیا والدہ اپنے ایک بیٹے کو پوری دے سکتی ہیں؟کسی بھی شکل میں؟ والد کے انتقال کے بعد دوسرے بڑے بھائی والد کی ملازمت کررہے ہیں۔ سب سے بڑے بھائی کام کررہے ہیں اور چھوٹا بھائی والد کے انتقال کے وقت پڑھائی کررہا تھا۔ دوسرے بڑے بھائی نے کچھ ذمہ داریاں سنبھالی جیسے بہنوں کی شادی ، چھوٹے بھائی کی تعلیم اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں۔ گھر میں صرف وہی مالی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ یہ بھائی اور والدہ دونوں زبانی معاہد ہ کررہے ہیں ۔ والدہ کہہ رہی ہیں کہ اگر تم گھر کی ذمہ داری لوتو میں تم کو پوری پروپرٹی دیدوں گی۔ دونوں نے کسی بھائی یا بہن سے مشورہ نہیں لیا۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام پروپرٹی ایک بیٹے کو دینا جائز ہے ، صرف اس لیے کہ اس بیٹے نے کچھ ذمہ داریاں سنبھالی ہے۔ 

    سوال: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے ، والد ہ کو بطور مہر پروپرٹی (گھر) دینا ان کی وصیت تھی۔ اگر والدہ اس پروپرٹی (گھر) کو ہم تین بھائیوں اور پانچ بہنوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہئے تو ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
    (۲) کیا والدہ اپنے ایک بیٹے کو پوری دے سکتی ہیں؟کسی بھی شکل میں؟ والد کے انتقال کے بعد دوسرے بڑے بھائی والد کی ملازمت کررہے ہیں۔ سب سے بڑے بھائی کام کررہے ہیں اور چھوٹا بھائی والد کے انتقال کے وقت پڑھائی کررہا تھا۔ دوسرے بڑے بھائی نے کچھ ذمہ داریاں سنبھالی جیسے بہنوں کی شادی ، چھوٹے بھائی کی تعلیم اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں۔ گھر میں صرف وہی مالی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ یہ بھائی اور والدہ دونوں زبانی معاہد ہ کررہے ہیں ۔ والدہ کہہ رہی ہیں کہ اگر تم گھر کی ذمہ داری لوتو میں تم کو پوری پروپرٹی دیدوں گی۔ دونوں نے کسی بھائی یا بہن سے مشورہ نہیں لیا۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام پروپرٹی ایک بیٹے کو دینا جائز ہے ، صرف اس لیے کہ اس بیٹے نے کچھ ذمہ داریاں سنبھالی ہے۔ 

    جواب نمبر: 30379

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):543=359-3/1432

    (۱) یہ وصیت جو بحق والدہ ہے، شرعاً کالعدم ہے اس کی وجہ سے والدہ صاحبہ اپنے حصہٴ شرعیہ (1/8) سے زیادہ مستحق نہ ہوں گی اور نہ ہی ان کو اپنی ملکیت سے زائد حصہ میں شرعاً کسی ایک بیٹے کو دینے کا حق ہے، یہ حکم فی نفسہ وصیت کا ہے باقی رہا معاملہ مہر کا سو اس کا حکم یہ ہے کہ جو کچھ مہر مقرر تھا اس کی حق دار والدہ ضرور ہے اور اس کی ادائیگی والد مرحوم کے ترکہ سے ورثہ کے مابین تقسیم سے قبل کی جائے گی اور اس کی وجہ سے والدہ صاحبہ کا ترکہ میں حصہٴ شرعیہ کم نہ ہوگا، گھریلو معاملات اور اخراجات میں ذمہ داریاں سنبھالنے کی وجہ سے وراثت کے حصوں میں کچھ کمی زیادتی نہیں ہوتی، پہلے شرعی اعتبار سے جلد از جلد وراثت تقسیم کرلی جائے، مہر اور دیگر والد مرحوم کے قرض کی ادائیگی اس سے پہلے کرلی جائے اور بعد تقسیم وراثت ہروارث اپنے حصہٴ شرعیہ کو اپنے قبضہ میں لے لے اس کے بعد حسن معاشرت حسن سلوک کے ساتھ مل جل کر اپنی اپنی حیثیت کے بقدر ایک دوسرے پر خرچ کرتے رہیں، اسلامی حکم یہ ہے، اسی کو ملحوظ رکھ کر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
    (۲) نمبر ایک کے تحت حکم لکھ دیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند