• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 163821

    عنوان: بچوں كو كمی بیشی كے ساتھ حصہ دینا

    سوال: میرا نام عبد اللہ طاہر اور والد صاحب کا نام محمد خواجہ ہے۔ میرا گھر ۲۰۰/ گز میں ہے ۔ والد صاحب حصہ دینے کو منع کر رہے ہیں، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ راہنمائی فرمائیں۔ پہلے کہتے تھے کہ نہیں دوں گا۔ مسجد کے لوگوں نے سمجھایا تو اب کہہ رہے ہیں کہ ایک حصہ دوں گا اور بیٹیوں کو تین حصہ دوں گا ۔ در اصل پانچ حصے گھر میں الگ الگ بنے ہوئے ہیں ۲۰۰/ گز میں اور میں اکیلا بھائی ہوں اور تین بہنیں ہیں جس میں سے تینوں کی بھی شادی ہوگئی ہے اور ۲/ خلع شدہ ہے اور ایک بہن ہمارے اس ۲۰۰/ گز گھر کے ایک حصہ میں رہتی ہے اور بہنوئی بھی ساتھ میں رہ رہے ہیں، اور ایک دوسری بیوی بھی آتی جاتی رہتی ہے ان کی ۔ تینوں بہنیں ابھی بھی اسی ۲۰۰/ گز گھر میں رہتی ہیں اور حصہ لینے کو ہم سے بول رہی ہیں۔ براہ کرم، اس مسئلہ کا شریعت کی روشنی میں جواب دیں۔

    جواب نمبر: 163821

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1198-930/SN=12/1439

    باپ بچوں کو زندگی میں جو کچھ دیتا ہے وہ میراث نہیں ”ہبہ“ ہوتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ میں بہتر یہی ہے کہ تمام بیٹے بیٹیوں کو برابر دے، گو یہ بھی جائز ہے کہ بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک گنا دے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب آپ کے والد یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ایک حصہ اور تینوں بیٹیوں کو تین حصے دیں گے تو شرعاً ان کا یہ فیصلہ درست ہے، انہیں چاہئے کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لئے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ کے چار حصے کرکے ایک حصہ آپ کو اور باقی تین حصے تینوں بیٹیوں کو دیدیں، اور جس کو جو حصہ دے اسے اس پر مکمل طور پر قبضہ دخل دے کر اپنا دخل ختم کرلیں ورنہ بچوں کے حق میں ہبہ تام نہ ہوگا اور بچے اپنے اپنے حصے کے شرعاً مالک نہ ہوں گے؛ کیونکہ ہبہ کی تمامیت کے لئے قبضہ تامہ ضروری ہے۔ دیکھیں: درمختارمع الشامی: ۸/۴۸۹، ۵۰۳، ط: زکریا، دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند