• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 603697

    عنوان:

    والدین بقید حیات ہونے کی صورت میں باقی بھائیوں کے خرید کئے ہوئے پلاٹ سے کیا حصہ ملے گا؟

    سوال:

    عرض خدمت یہ ہے کہ ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں جس میں سے چار بھائی اور ایک بہن کی شادی ہو چکی ہے ۔ مین بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں اور الحمد للہ میری اچھی نوکری ہے ۔ والد صاحب رٹائرڈ ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بھائی شادی کے کچھ ماہ بعد(تقریبا5سال قبل) الگ رہنے لگا مگر باقی بھائی اب بھی ساتھ ساتھ بڑے میل جول سے رہتے ہیں. والد محترم کو اپنے والد بزرگ وار سے وراثت میں کچھ حصہ ملا تھا(تقریبا آدھا بسہ) جس میں ہم نے اپنا بچپن گذارا والد محترم نے تین بسہ زمین مزید خریدی مگر ہم لوگوں کی کثرت اور شادی کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہوئے قریبی محلے میں ایک زمین اور خرید لی اور اس پہ مکان بنایا جس میں ہم سبھی فی الحال رہتے ہیں۔ اس عرض حال کے بعد مسئلہ یہ ہے کہ مجھ سے چھوٹا بھائی چونکہ کئی سال قبل الگ ہو چکا ہے اسی اثنا اب ہم سب نے متفقہ طور پر ایک بڑا پلاٹ لیا ہے جس میں مجھ سے چھوٹے بھائی کا کوئی عمل دخل نہیں اس کے علاوہ سب نے رقوم کی فراہمی اور مال درپیش میں کافی محنتیں کیں مگراب بھی اس کی تحریری رجسٹری کے اخراجات درپیش ہیں۔ میرے بھائیو کے بیچ یہ نزاع کا باٰعث بنا ہوا ہے چونکہ والد محترم زندہ ہیں اس لئے اس نئے پلاٹ سے مجھ سے چھوٹے بھاءِ کو حصہ ملے گا یا نہیں؟ ایک بھائی کے الگ ہونے کے بعد والدین بقید حیات ہونے کی صورت میں باقی بھائیوں کے خرید کئے ہوئے پلاٹ سے کیا حصہ ملے گا؟ براہ کرم تفصیلی جواب دے کر اس نزاع کا سد باب فرمائیں۔

    جواب نمبر: 603697

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:625-105T/n=8/1442

     شریعت میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ والدین کی حیات میں اگر کوئی بیٹا یا چند بیٹے اپنے ذاتی پیسوں سے کوئی مکان یا پلاٹ وغیرہ خریدیں تو اس میں سب بھائی بہنوں کا حصہ ہوتا ہے یا وہ والدین کا ہوتا ہے ؛ بلکہ جو بیٹا یا بیٹے اپنے ذاتی پیسوں سے خریدیں گے، وہ مکان یا پلاٹ صرف اُن کا ہوگا (امداد المفتین ،کتاب الشرکة والمضاربة، ص: ۶۸۳، ۶۸۴، سوال: ۷۱۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی) اور ہر ایک کی حصہ داری اُس کی دی ہوئی رقم کے تناسب سے ہوگی، یعنی: اگر سب نے برابر برابر پیسہ ملایا ہے تو سب کا برابر برابر حصہ ہوگا، اور اگر ایک نے نصف اور دوسرے اور تیسرے نے چوتھائی چوتھائی تو اول کا نصف حصہ اور دوسرے اور تیسرے کا چوتھائی چوتھائی ہوگا۔

    اور اگر وہ بیٹے اپنی مرضی خوشی سے ماں یا باپ کو خرید کردہ مکان یا پلاٹ کا مالک بنادیں اور اُنھیں حسب شرع قبضہ دخل بھی دیدیں تو وہ ماں یاباپ کا ہوجائے گا اور پھر جب ماں یا باپ (موہوب لہ) کا انتقال ہوگا تو اُن کے ترکہ میں شامل ہوکر حسب شرع جملہ وارثین میں تقسیم ہوگا، جن میں وہ بھائی بہن بھی شامل ہوں گے، جنہوں نے مکان یا پلاٹ کی خریداری میں پیسوں کے ذریعے کچھ بھی حصہ داری نہیں کی تھی۔

    قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین“ (السنن الکبری للبیہقی،۷: ۷۹۰)۔

    الملک ما من شانہ أن یتصرف فیہ بوصف الاختصاص (رد المحتار، أول کتاب البیوع، ۷:۱۰ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۴: ۱۰، ت: الفرفور، ط: دمشق نقلاً عن التوضیح)۔

    کل یتصرف في ملکہ کیفما شاء ( مجلة الأحکام العدلیة مع شرحھا: درر الحکام لعلي حیدر، ۳: ۲۰۱، رقم المادة: ۱۱۹۲، ط: دار عالم الکتب للطباعة والنشر والتوزیع، الریاض)۔

    اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قول المجلة :”مع ابنہ“ إشارة لھذا الشرط،مثلاً إن زیداً یسکن مع أبیہ: عمرو في بیت واحد ویعیش من طعام أبیہ، وقد کسب مالا آخر، فلیس لإخوانہ بعد وفاة أبیہ إدخال ما کسبہ زید فی الشرکة (درر الحکام شرح مجلة الأحکام لعلي حیدر، ۳:۴۲۱ط: دار عالم الکتب للطباعة والنشر والتوزیع، الریاض)۔

    لو کان لکل منھما صنعة یعمل فیھا وحدہ فربحہ لہ (شرح المجلة لسلیم رستم باز اللبناني، ص: ۷۴۱، ط: مکتبة الاتحاد، دیوبند)۔

    سئل في ولد بالغ انضم إلی أبیہ وصار في عیالہ یبیع ویشتري ویوٴاجر نفسہ، فاجتمع عندہ أموال بسبب ذلک، فھل یکون لأبیہ دخل في ذلک أم لا؟ أجاب:لیس لأبیہ دخل في ذلک۔ یتیمة الدھر(الفتاوی الأزھریة، ص: ۴۴، مخطوط)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند