• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 601944

    عنوان:

    ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا

    سوال:

    مولانا صاحب الحمد اللہ میں نے پوری ایک مشت داڑھی رکھی ہوئی ہے ۔ حال ہی میں نظر سے درج ذیل مضمون گزرا تو میرے دل میں بھی داڑھی کترنے کی خواہش پیدا ہو گئی ہے ۔ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ سیدنا علی المرتضٰی (رض) اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے کاٹتے تھے . اس روایت کو امام ابی شیبہ، امام محمد بن عبدالبر، امام زید سمیت عالم عرب کے سینکڑوں محدثین نے کتابوں کی زینت بنایا جب کہ پاکستان میں بھی بہت سارے محدثین مفتی عبدالقیوم ہزاروی، مفتی یوسف وغیرہ نے نقل کیا! عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ، قَالَ: رَسُولُ للهِ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ: إِنَّہُمْ یُوَفِّرُونَ سِبَالَہُمْ، وَیَحْلِقُونَ لِحَاہُمْ، فَخَالِفُوہُمْ: ""حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں کم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو وہ مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھیاں منڈاتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو۔"" بخاری الصحیح، 2: 875، ر قم: 5893 مسلم، الصحیح، 1: 222، رقم: 260 أحمد بن حنبل، المسند، 2: 365، رقم: 8764، مصر: موٴسسة قرطبة المصنف ابن ابی شیبہ:۸/۵۶۷۔۵۶۶، المعجم الاوسط للطبرانی:۱۰۵۵۔۱۶۴۵، السنن الکبری للبیہقی:۱/۱۵۱، شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۷،وسندہ الصحیح، حدیث کی تشریح: "آقا کریم صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان میں داڑھی رکھنے کا حکم تو ہے مگر داڑھی رکھنے کی کسی بھی مقدار کا حکم نہیں نبی کریم نے فقط اتنی داڑھی رکھنے کا حکم دیا جس سے داڑھی منڈوانے والے کی مخالفت ہو سکے یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ اکرام اپنی اپنی پسند کے مطابق داڑھی رکھتے تھے ." امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ مسلک حنفی یوں بیان کرتے ہیں ۔ عن أبی حنیفة عن حماد عن إبراہیم أنہ قال لابأس ان یاعذ الرجل من لحیة مألم مشتبہ باہد الشرک (امام ابو یوسف یعقوب بن إبراہیم متوفی ۰۵۱ہ ، کتاب الآثار ۴۳۲) امام اعظم ابو حنیفہ روایت کرتے ہیں کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ مشرکین (داڑھی منڈوانے والے ) کی مخالفت ہو ۔ ۰۸۴۵۲-- حدثنا وکیع عن أبی ہلال قال : سألت الحسن و ابن سیرین فقالا : لابأس بہ أن نأخذ صول لحیتک : کتاب المصنف ابن أبی شیبة حدیث ۰۸۴۵۲ابو الھلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن سرین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں ۔۔ " عَنِ اِبْنِ عَبَاسْ عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ مِنْ سَعَادَةِ الرَّجُلِ خِفَّةُ لِحْیَتِہِ: " ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا داڑھی کا چھوٹا ہونا مرد کی سعادت میں سے ہے -" رواہ الطبرانی ،باب البأس مطبوعة بیروت شرح المشکوة جلد ۸ص ۸۹۲باب الرجل فصل ثانی. الکامل، ج 7 ص 128 تشریح """"ثابت ہوا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنا سعادت والی بات ہے ۔ عَنِ سَمَاکْ رضی اللہ عنہ کَانَِ عَلَیً رضی اللہ عنہ یَأخُذُ مِنْ لِحْیَتِہِ مِمَّا یَالِیْ وَجْہَہُ: "حضرت علی اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے داڑھی کاٹتے تھے ۔" المصنف ابن أبی شیبة، ۵ : ۵۲۲رقم: ۰۸۴۵۲مکتبة الرشد الریاض، اہم علمی نقطہ ۔۔۔ امام اعظم ابو حنیفہ سے لے کر امام ابن عابدین شامی تک اہلسنت والجماعت کی 14 سو سالہ تاریخ میں کسی محدث نے بھی ایک مشت داڑھی کو واجب نہیں کہا مگر برصغیر پاک وہند میں گیارہویں صدی عیسوی میں برصغیر کے ایک متاخر عالم شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے محض اپنی رائے سے ایک مشت داڑھی کو واجب کہنے کی بدعت کا آغاز کیا ۔۔انڈیا و پاکستان میں بعد کے محدثین نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی پیروی کی ۔ یاد رہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے داڑھی کے وجوب پر کوئی دلیل پیش نہیں کی ۔ یاد رکھیں کہ اصول فقہہ کے 11 مراتب ہیں ۔ ہر بڑے فتوی کے شروع کے صفحات میں علم فقہہ کے یہ 11 مراتب درج ہوتے ہیں ۔ اصول فقہہ کا ایک عام سا طالب بھی اگر داڑھی کی مقدار کو ان 11 مراتب پر پرکھے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موقعدہ ہے کیوں کہ نبی کریم صلی علیہ و آلہ وسلم نے داڑھی رکھنے کی کوئی مقدار مقرر نہیں ۔ "امام ابن عابدین شامی کا مایہ ناز فتوی فتوی درمختار میں اصول فقہہ کے یہی 11 مراتب درج ہیں امام ابن عابدین شامی واجب کی تعریف یوں لکھتے ہیں واجب اسے کہتے ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہو یہنی کہ جس کام کا نبی کریم صلی علیہ و آلہ وسلم حکم دیں اور پھر اس کے نا کرنے پر وعید فرمائیں اسے واجب کہتے ہیں." شامی ، درمختار ج 1 ص 53 جب کہ دنیا جانتی ہے کہ نبی کریم نے تو داڑھی رکھنے کی کوئی بھی مقدار مقرر نہیں ۔۔۔ ایک مشت داڑھی رکھنے کا تو حکم ہی نہیں دیا وعید سنانا تو بہت دور کی بات ہے ۔ ثابت ہوا کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موقعد ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ درج بالا مضمون کی صحت کے حوالے سے آگاہ فرمائیں۔

    جواب نمبر: 601944

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 440-100T/H=05/1442

     ڈاڑھی کا مونڈنا یا مونڈوانا حرام ہے ایک مشت سے کم رکھنے کے لئے کترنا یا کتروانا ناجائز و گناہِ کبیرہ ہے، صحیح اور صریح احادیث شریفہ سے صاف اور واضح انداز پر اس کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں۔

    (الف) ڈاڑھی کا وجوب۔ (ب) ڈاڑھی کا فلسفہ۔ (ج) اختلافِ امت اور صراط مستقیم ۔ (د) ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں ۔ پس مقدارِ واجب سے کم رکھنے کی خاطر آپ ہرگز اپنی ڈاڑھی نہ کتریں نہ کتروائیں۔ جو طویل مضمون آپ نے نقل کیا ہے اُس کا کچھ حوالہ نہیں لکھا کہ یہ کس کا مضمون ہے اور کس کتاب سے نقل کیا ہے، پورا حوالہ تحریر کریں، تب ان شاء اللہ تفصیل سے اس کا جواب لکھ دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند