• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 63306

    عنوان: الفاظ کنایہ کونسے ہیں اور الفاظ صریح کونسے ہیں؟

    سوال: لفظ” آزاد“ کنایہ ہے یا صریح ہے؟ بہت سارے مفتیان کرام سے بات کی اور وہ بولتے ہیں کہ کنایہ ہے، لیکن پاکستان میں بہت سارے لوگ اپنی بیوی کو بولتے ہیں کہ میری طرف سے آزاد ہو، ان کی نیت نہیں ہوتی، کوئی کوئی تو دس مرتبہ بول لیتے ہیں اور طلاق کی نیت نہیں ہوتی، کیا ایسے لوگ پھر حرام کی زندگی گذاررہے ہیں؟ (۲) اگر شوہر بولے میری طرف سے آزادی ہے، تم باہر جاسکتی ہو، یا شاپنگ کے لیے جاسکتی ہو یا کسی دوست کے گھر بھی تو کیا طلاق ہوجاتی ہے؟ (۳) الفاظ کنایہ کونسے ہیں اور الفاظ صریح کونسے ہیں؟ (۴) الفاظ کنایہ سے کب طلاق ہوجاتی ہے جب کہ انسان کی نیت نہ ہو ، کونسے حالات ، مذکرات میں؟ (۵) بہت سارے انسان اپنی بیوی کو بولتے ہیں ، تم کو چھوڑدیا، آزاد ہو اور دس دس مرتبہ بولتے ہیں ، کیا وہ سب پھر گناہ کی زندگی گذار رہے ہیں؟ اکثر کو یہ مسئلہ پتا بھی نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ دعاؤں میں یاد رکھیں۔

    جواب نمبر: 63306

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 342-360/N=4/1437-U (۱) اگر شوہر بیوی سے کہے کہ ’ ’میں نے تمھیں آزاد کردیا“ یا ”تم آزاد ہو“ یا اس طرح کا کوئی اور لفظ، اور محل استعمال میں طلاق کے علاوہ کسی اور معنی پر دلالت کرنے والا کوئی قرینہ نہ ہو؛ بلکہ طلاق پر دلالت کرنے والاقرینہ ہو یا کچھ بھی قرینہ نہ ہو تو عرف عام میں اس سے طلاق کے معنی ہی مراد ہوتے ہیں، پس یہ لفظ ایسی صورت میں بحکم صریح ہوگا اور اس سے طلاق رجعی واقع ہوگی، ہمارے اکثر اکابر کا موقف یہی ہے اور یہی راجح ہے (دیکھئے: امداد الفتاوی ۲: ۴۲۵- ۴۲۷، سوال: ۵۰۸، ۵۱۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، امداد الاحکام ۲: ۴۴۴، ۴۴۵، ۴۴۷، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۲: ۳۵۲، ۳۵۸، ۳۵۹، ۵۰۴، ۵۱۵، ۶۲۲، ۶۲۳، سوال: ۶۰۹۶، ۶۱۰۰۰، ۶۱۶۵، ۶۱۷۲، ۶۲۴۴، فتاوی رحیمیہ ۸: ۳۰۳، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۶: ۴۵۵، ۴۵۶، ۴۵۷، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۵۲۴، ۵۲۶، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز، دہلی) ، ولو قال الرجل لامرأتہ: ”تراچنگ باز داشتم“ أو ”بھشتم“ أو ”پلّہ کردم ترا“ أو ”پائے کشادہ کردم ترا“ فھذا کلہ تفسیر قولہ: ”طلقتک“ عرفاً حتی یکون رجعیاً ویقع بدون النیة کذا فی الخلاصة، وکان الشیخ الإمام ظھیر الدین المرغیناني رحمہ اللہ تعالی یفتي في قولہ: ”بھشتم“ بالوقوع بلا نیة ویکون الواقع رجعیاً ویفتي فیما سواھا باشتراط النیة ویکون الواقع بائناً کذا فی الذخیرة (فتاوی عالمگیری ۱: ۳۷۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، قال فی الشرنبلالیة: وقع السوٴال عن التطلیق بلغة الترک ھل ھو رجعي باعتبار القصد أو بائن باعتبار مدلول ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ ؛ لأن معناہ خالیة أو خلیة؟ فینظر۔ قلت: وأفتی الرحمتي تلمیذ الخیر الرملي بأنہ رجعي، وقال: کما أفتی بہ شیخ الإسلام أبو السعود، ونقل مثلہ شیخ مشایخنا الترکماني عن فتاوی علی آفندي مفتی دار السلطنة وعن الحامدیة (شامی ۴: ۴۵۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، فإن ”سرحتک“ کنایة، لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح، فإذا قال: ”رھا کردم“ أي: ”سرحتک“ یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضاً، وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ فی الطلاق، وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا فی الطلاق من أي لغة کانت، ……، وأما إذا تعورف استعمالہ في مجرد الطلاق لا بقید کونہ بائناً یتعین وقوع الرجعي بہ کما في فارسیة: ”سرحتک“ ، ومثلہ ما قدمناہ في أول باب الصریح من وقوع الرجعي بقولہ: ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ في لغة الترک مع أن معناہ العربي: أنت خلیة وھو کنایة، لکنہ غلب في لغة الترک استعمالہ فی الطلاق (شامی ۴: ۵۳۰، ۵۳۱) ، اور اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی سے کم از کم تین مرتبہ یہ کہہ دیا کہ ”میں نے تمھیں آزاد کردیا“ ، یا ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ اور سیاق وسباق اور قرائن کی روشنی میں نکاح کے علاوہ کسی اور چیز سے آزادی مراد نہ ہو تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور وہ اس پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اور حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہ ہوگی۔ اور اگر کوئی قرینہ یا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں نکاح کے علاوہ کسی اور سے سے آزادی مراد ہے، مثلاً بیوی کھانا کھانے میں اپنے کو شوہر کا پابند سمجھتی ہے تو شوہر اس کی رعایت میں کہے کہ اس سلسلہ میں تم آزاد ہو، جب تمھیں بھوک لگے، کھالیا کرو، میرا انتظار نہ کیا کرو، پس یہاں نکاح سے آزادی ہرگز مراد نہیں ہے؛ بلکہ اس سیاق میں یہ لفظ طلاق کے معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتا؛ اس لیے اس صورت میں عورت پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اور واضح ہو کہ کسی لفظ صریح کا قرینہ لفظیہ کے ساتھ دوسرے معنی میں استعمال ہونا اس کے صریح ہونے کے منافی نہیں ہوتا (فتاوی عثمانی۲: ۳۶۶)؛ اس لیے اس استعمال کے باوجود یہ لفظ عام حالات میں اردو کے محاورے کے مطابق طلاق کے معنی میں صریح ہی ہوگا، اسے کنایہ قرار دینا صحیح نہ ہوگا۔ (۲): اس کا جواب اوپر نمبر ایک میں آگیا۔ (۳): اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے، وہاں ملاحظہ فرمالیں۔ (۴): اس مسئلہ میں بھی تفصیل ہے، کتب فقہ کی مراجعت فرمالیں۔ اور اگر کسی خاص پیش آمدہ صورت کے متعلق سوال کرنا چاہیں تو وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں، انشاء اللہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ (۵): ”آزاد کردیا“ کی طرح ”چھوڑدیا“ کا لفظ بھی اردو محاورے میں طلاق کے معنی میں صریح ہے، راجح یہی ہے (دیکھئے: امداد الفتاوی ۲: ۴۵۶، سوال: ۵۵۰، امداد الاحکام ۲: ۴۴۳، ۴۴۵، ۴۴۶، ۴۴۸، امداد المفتین ص ۶۱۶، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۲: ۳۴۰-۳۵۸، سوال: ۶۰۸۸-۶۰۹۹، فتاوی رحیمیہ جدید تخریج شدہ ۸: ۲۹۶، ۲۹۷، سوال: ۳۶۶، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۶: ۴۳۹، احسن الفتاوی۵: ۱۶۶، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۲۱۳، ۲۳۵، فتاوی عثمانی ۲: ۳۴۱-۳۴۵، ۳۴۸، ۳۶۱، ۳۶۵) ، پس اس کا حکم وہی ہوگا جو اوپر ”میں نے تمھیں آزاد کردیا“ یا ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ وغیرہ کا تحریر کیا گیا، اور مزید تفصیل اوپر نمبر ایک میں ذکر کردی گئی۔ (۶): اللہ تعالی ہم سب کو؛ بلکہ ہر مسلمان کو اپنی رضا وخوشنودی مرحمت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند