معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 42468
جواب نمبر: 4246801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1135-1171/N=1/1434 شریعت میں طلاق کا سب سے بہتر اور عمدہ طریقہ یہ ہے کہ جس پاکی میں عورت سے صحبت نہ کی گئی ہو اس میں صاف اور صریح الفاظ میں صرف ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت ختم ہونے تک مزید کوئی طلاق نہ دی جائے، اوراگر رجعت کا ارادہ بالکل نہ ہو تو دورانِ عدت اسبابِ رجعت سے بھی پرہیز کیا جائے، عورت کی جب عدت مکمل ہوجائے گی، تو وہ مکمل طور پر نکاح سے نکل جائے گی، کذا في الدر والرد (کتاب الطلاق: ۴/۴۳۲، باب الرجعة: ۵/۳۸، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ایک آدمی نے اپنی بیوی کو غصہ میں یہ کہا کہ میں نے تجھے طلاق دی، دی، دی۔ تو کیا یہ طلاق ایک بار مانی جائے گی یا تین بار مانی جائے گی، جب کہ اس نے طلاق لفظ ایک بار ہی کہا ہے؟ (۲)اگر یہ ایک بار مانی جائے گی تو کیا ایک بار کے کہنے سے ہی طلاق ہوجاتی ہے یا تین بار کہنا ضروری ہے؟
12783 مناظر