• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 15603

    عنوان:

    میں نے اپنی بیوی کو ای میل کے ذریعہ تین طلاق دے دی۔جس کی بڑی وجہ میری بیوی کا مجھ سے رویہ تھا۔ جب یہ طلاق ان کو ملی تو انھوں نے مخالف علماء سے رابطہ کیا اور ا ن کو اہل حدیث کے علماء نے ایک فتوی لکھ کہ دے دیا کہ ایک ہی طلاق ہوئی۔ میں اس فتوی کی تفصیل ساتھ نیچے بیان کرتاہوں، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ رجوع ممکن ہے یا نہیں؟ اوراگر ممکن نہیں، تو اس فتوی میں بیان کردہ حوالہ جات کی کیا حیثیت ہے۔ سوال: [میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق ای میل کے ذریعہ ایک ہی بار میں دے دی، کیا عدت مکمل ہونے سے پہلے رجوع ممکن ہے، قرآن اور سنت کی روشنی میں اس کا حل تجویز کریں]۔جواب: [ صورت مسئولہ بشرط صحت سوال کے مطابق، مسمی ?ج? نے اپنی بیوی مسمات ?و? کو بذریعہ ای میل تین طلاقیں دیں۔ اگر ای میل یقینی طور سے مسمی ?ج? کی طرف سے ہی ہے تو اس صورت میں یہ ایک طلاق شمار کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، ........

    سوال:

    میں نے اپنی بیوی کو ای میل کے ذریعہ تین طلاق دے دی۔جس کی بڑی وجہ میری بیوی کا مجھ سے رویہ تھا۔ جب یہ طلاق ان کو ملی تو انھوں نے مخالف علماء سے رابطہ کیا اور ا ن کو اہل حدیث کے علماء نے ایک فتوی لکھ کہ دے دیا کہ ایک ہی طلاق ہوئی۔ میں اس فتوی کی تفصیل ساتھ نیچے بیان کرتاہوں، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ رجوع ممکن ہے یا نہیں؟ اوراگر ممکن نہیں، تو اس فتوی میں بیان کردہ حوالہ جات کی کیا حیثیت ہے۔ سوال: [میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق ای میل کے ذریعہ ایک ہی بار میں دے دی، کیا عدت مکمل ہونے سے پہلے رجوع ممکن ہے، قرآن اور سنت کی روشنی میں اس کا حل تجویز کریں]۔جواب: [ صورت مسئولہ بشرط صحت سوال کے مطابق، مسمی ?ج? نے اپنی بیوی مسمات ?و? کو بذریعہ ای میل تین طلاقیں دیں۔ اگر ای میل یقینی طور سے مسمی ?ج? کی طرف سے ہی ہے تو اس صورت میں یہ ایک طلاق شمار کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت رکانہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہوئی اگرتم چاہو تو رجوع کرلو۔ پس حضرت رکانہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رجوع کرلیا۔ بحوالہ فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد نمبر:1/ صفحہ نمبر316۔ نیز مسند احمد جلد نمبر:1/ صفحہ نمبر365، او رمسند ابو یعلی ،جلد نمبر4/ صفحہ نمبر340 ]۔[ الطلاق مرتان] سورہ بقرہ، آیت نمبر229۔ یعنی طلاق دو مرتبہ الگ الگ مدت میں ہے نہ کہ ایک ساتھ کئی طلاقیں۔ لہذاتاریخ طلاق سے تین ماہ کی مدت میں رجوع کیا جاسکتاہے۔ تین ماہ کے بعد رجوع کرنے کے لیے دونوں کا نکاح ہوگا جدید۔ والسلام

    جواب نمبر: 15603

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1400=279tl/1430

     

    ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کامسلک یہ ہے کہ ایک مجلس میں یاایک ہی کلمہ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اوران کے ذریعہ بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ یہی قول اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے ائمہ اربعہ میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ارو یہی قول قرآن وحدیث واجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ جمہور کے دلائل مفصلاً کتابوں میں مذکور ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنی بیوی کو تین طلاق بذریعہ ای میل دیدی ہے تو تینوں طلاقیں آپ کی بیوی پر واقع ہوگئیں، اور اب بغیر حلالہ شرعی آپکے لیے اس سے نکاح کرنا درست نہیں اورآپس میں میاں بیوی کی طرح رہنا، ناجائز اور قطعی حرام ہے، دونوں زانی اور بدکار کہے جائیں گے۔ صحیح مذہب کے خلاف غیرمقلدوں کے فتویٰ کا سہارا لینے سے حرام شدہ عورت حلال نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک فتویٰ میں بیان کردہ حوالہ جات کا تعلق ہے تو یہ حدیث ابوداوٴد، ابن حبان، حاکم دار قطنی، ترمذی شریف، ابن ماجہ وغیرہ میں لفظ البَتَّةَ سے مذکور ہے اور البتہ میں ایک اور تین دونوں کا احتمال رہتا ہے اور اس کا مدار نیت پر ہے، یہی وجہ ہے جب حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ واللہ ما أردت إلا واحدة خدا کی قسم میں نے لفظ [الببة] سے ایک ہی طلاق کی نیت کی ہے، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تم نے نیت کی ہے اسی کا اعتبار ہے، اور مسند احمد کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اضطراب کی وجہ سے معلول کہا ہے، اور علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے تمہید میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، نیز مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو امام جصاص اور علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے اسی سبب سے منکر قرار دیا ہے کہ یہ روایت ان ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہے، جنھوں نے لفظ [البتة] کے ساتھ روایت کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے بھی تلخیص الحبیر میں اس کو معلول قرار دیا ہے۔ امام نووی شارح مسلم شریف فرماتے ہیں: وأما الروایةا لتي رواھا المخالفون أن رکانة طلقھا ثلاثا فجعلہا واحدة روایة ضعیفة عن قومٍ مجہولین وإنما الصحیح منھا ما قدمنا أنہ طلقہا ألبتة ولفظ ألبتة محتمل للواحدة والثلاث لعل صاحب ھذہ الروایة الضعیفة اعتقد أن لفظ البتتة یقتضي الثلاث فرواہ بالمعنی الذي فہمہ وغلط في ذلک (نووي شرح مسلم: ۱/ ۴۷۸)

    حاصل یہ ہے [أن رکانة طلقہا ثلاثا] والی روایت ضعیف ہے، صحیح [البتة] والی روایت ہے، اور [البتة] میں ایک اور تین دونوں کا احتمال ہے، جب حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھاکر یہ کہا کہ میں نے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیت کی تصدیق فرماکر دوبارہ ان کواس خاتون سے نکاح کرنے کی اجازت دیدی، اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق رجعی شمار کرنے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک آیت کا تعلق ہے تو الطلاق مرتان میں [مرتان] کے معنی اثنان ہیں، یعنی طلاق رجعی دو ہیں، چاہے یہ دو الگ الگ طہر میں دی جائیں یا ایک طہر میں الگ الگ مجلس میں دی جائیں یا ایک مجلس میں الگ الگ لفظوں میں دی جائیں یا ایک ہی لفظ میں۔ آیت کریمہ کا یہ مطلب شان نزول کے زیادہ موافق ہے اور یہی مطلب عبارت قرآنی کے زیادہ لائق ہے،ارشاد ربانی ہے: نُوٴْتِہَا اَجْرَھَا مَرَّتَیْن چنانچہ علامہ ابن حزم محلی میں لکھتے ہیں: وأما قولہم معنی قولہ الطلاق مرتان أن معناہ مرة بعد مرة فخطأ بل ھذہ الآیة کقولہ تعالیٰ نوٴتہا أجرہا مرتین أی مضاعفًا معًا) (محلی ابن حزم)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند