• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 61841

    عنوان: ایک شخص جو دبئی میں سیکوریٹی ملازمت کرتاہے ، پاکستان میں اپنی بیوی کے موبائل نمبر پر مسیج بھیجتاہے جس میں تین بار یہ لکھتاہے کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں، اور پھر کچھ دن بعد کہتاہے کہ مجھے تو پتا نہیں تھا کہ س طرح طلاق ہوسکتی ہے ، وہ شخص یہ بات حلفاً کہتاہے کہ میں اس وقت بالکل بھی ہوش و حواس میں نہیں تھا اور مجھے کچھ یاد نہیں اور نہ پتاکہ میں نے اس وقت مسیج میں کیا کچھ لکھ دیا۔ اس صورت میں طلاق ہونے یا نہ ہونے کا کیا حکم ہے؟

    سوال: ایک شخص جو دبئی میں سیکوریٹی ملازمت کرتاہے ، پاکستان میں اپنی بیوی کے موبائل نمبر پر مسیج بھیجتاہے جس میں تین بار یہ لکھتاہے کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں، اور پھر کچھ دن بعد کہتاہے کہ مجھے تو پتا نہیں تھا کہ س طرح طلاق ہوسکتی ہے ، وہ شخص یہ بات حلفاً کہتاہے کہ میں اس وقت بالکل بھی ہوش و حواس میں نہیں تھا اور مجھے کچھ یاد نہیں اور نہ پتاکہ میں نے اس وقت مسیج میں کیا کچھ لکھ دیا۔ اس صورت میں طلاق ہونے یا نہ ہونے کا کیا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 61841

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1139-1137/N=1/1437-U شخص مذکور کے کلام میں تضاد ہے ، ایک طرف وہ کہتا ہے کہ مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ اس طرح طلاق ہوجاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق کا میسیج ہوش وحواس میں بھیجا، جب کہ دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس وقت بالکل ہوش وحواس میں نہیں تھا، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص دوسری بات میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہے ، پس اگر صورت حال یہی ہے تو سوال میں درج میسیج کی وجہ سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ حرمت غلیظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں دونوں کا آپس میں دوبارہ کا نکاح درست نہیں قال اللہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة( سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰)،وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة(سنن أبي داود،کتاب الطلاق،باب فی اللعان ص۳۰۶،ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔وقال في بدائع الصنائع(کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ ط: مکتبة زکریا دیوبند):وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿ فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾،وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط:دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان): …فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة(المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷الھجریة، حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹):المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب:المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس … اھ،وقال فی الفتاوی الھندیة( کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند):وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ، قال في رد المحتار (۴: ۴۵۶ ط مکتبة زکریا دیوبند) عن الھندیة: وإن کانت مرسومة یقع الطلاق نوی أو لم ینو الخ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند