• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 59370

    عنوان: شریعت کے مطابق طلاق دینے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟کیا میری بیوی میرے نکاح میں ہے یا نہیں؟

    سوال: میری بیوی دو سال سے الگ رہ رہی ہے اور وہ میرے ساتھ رہنے کے لیے نہیں آرہی ہے ۔ہمارا ایک بیٹاہے ، نام فیضان ہے۔ ایک سال پہلے میں نے دفعہ ازدواجی زندگی کے تحت(واپس نہ آنا اور ساتھ نہ رہنا) مقدمہ کیا تھا۔ کورٹ میں اس نے میرے اور میرے گھروالوں (ماں پاب) کے خلاف الزامات لگائے ۔ اب میں اس کو طلاق دینا چاہتاہوں۔ شریعت کے مطابق طلاق دینے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟کیا میری بیوی میرے نکاح میں ہے یا نہیں؟ براہ کرم، رہنمائی کریں۔

    جواب نمبر: 59370

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 816-648/D=7/1436-U

    طلاق کے سلسلہ کا کوئی جملہ آپ نے بیوی کو کہا یا لکھا تو بعینہ وہ الفاظ لکھ کر سوال کریں تاکہ بتایا جاسکے کہ بیوی نکاح میں ہے یا نہیں؟ اگر آپ نے طلاق کے الفاظ نہ صریح نہ کنایہ پہلے نہیں کہے ہیں تو بیوی نکاح میں برقرار ہے دو سال سے الگ رہنے کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوا۔ اگر زوجین میں ا یسی ناچاقی ہوگئی کہ حسن معاشرتت کے ساتھ زندگی گذارنا دشوار ہوگیا ہو تو اولاً صلح صفائی کرکے موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے دونوں خاندان کے ایک ایک دو دو آدمی بیٹھ کر مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کریں، اگر معاملہ حل ہوجائے تو سب سے بہتر ہے کیونکہ یہی صورت بچوں اور طرفین کے حق میں مناسب اور سودمند ہوگی؛ لیکن اگر موافقت کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو ایسی صورت میں طلاق دے سکتے ہیں، تین طلاق ہرگز نہ دیں کیونکہ نکاح ایک دو طلاق سے بھی عدت کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور طلاق بائنہ سے تو طلاق دیتے ہی ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا تین طلاق کی ضرورت نہیں ہے تین طلاق ایک ساتھ دینا سخت گناہ بھی ہے اور اس کے نقصانات بھی زائد ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند