• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 146104

    عنوان: طلاق كے سلسلے میں مرد کو اتنا اختیار کیوں دیاگیا؟

    سوال: میں کالج کا ایک طالب علم ہوں، یہاں بہت سارے غیر مسلم طلبہ ہیں، یونیفارم سول کوڈ سے متعلق مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مرکزی حکومت کے درمیان جاری بحث کے سلسلے ہمارے درمیان میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میرا سوال مساوات سے متعلق ہے،بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کے ناانصافی سے سلوک کیا جاتاہے اور تین الفاظ بول کر ان کی زندگی تباہ کردی جاتی ہے، اس موضوع پر گرم بحث جاری ہے، اور میں اس بارے میں جواب چاہتا ہو ں کہ اسلام نے مرد کو اتنا اختیار کیوں دیاہے؟اور پھر اگر مرد نشہ کی حالت میں ہو تو بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، تین طلاق کے بعد سمجھوتے کی غالباً کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ براہ کرم، جواب دیں تاکہ میں غیر مسلموں کو بھی جواب دے سکوں۔

    جواب نمبر: 146104

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 163-020/Sd=2/1438

     

    شریعتِ اسلام میں جس درجہ عورتوں کے حقوق پر زور دیا گیا ہے، اس کی نظیر دنیا کے کسی اور قانون میں نہیں ملتی ، اسلام کے نظامِ طلاق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہہ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہورہی ہے کہ اسلام میں عورت کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کیا جاتا،لوگ سمجھتے ہیں کہ شریعتِ اسلامی میں صرف تین طلاق ہی سے طلاق واقع ہوتی ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے،طلاق کے اقدام سے پہلے شریعت کی جو تعلیمات ہیں، اگر اُن پر عمل کیا جائے، تو تین طلاق کے اقدام کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ؛ بلکہ مطلق طلاق کی نوبت کم ہی آئے گی ۔

    اس کی تفصیل یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی پائدار معاہدہ ہے، جس کو سخت ضرورت کے بغیر توڑنا یا توڑنے کا مطالبہ کرنا اسلام میں ناجائز و ممنوع اور نکاح کے بنیادی مقصد اور اسلامی منشأ کے خلاف ہے ۔ احادیث میں بلا ضرورت طلاق کے استعمال پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے: اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے،دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے: تزوجوا، ولا تطلقوا، فان الطلاق یہتز لہ عرش الرحمان۔” نکاح کرو، مگر طلاق نہ دو؛ اس لیے کہ طلاق سے اللہ کا عرش ہل جاتا ہے“ ایک روایت میں ہے: أیما امرأة سئلت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس، فحرام علیہا رائحة الجنة۔ ” جو عورت سخت مجبوری کے بغیر خود طلاق طلب کرے، اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے“

              لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بسا اوقات میاں بیوی کے درمیان حالات خوشگوار نہیں رہتے، آپسی نا اتفاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں، دونوں میں نبھاوٴ مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں بھی اسلام نے جذبات سے کام لے کر جلد بازی میں فورا ہی اس پاکیزہ رشتہ کو بالکلیہ ختم کرنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ میاں بیوی دونوں کو مکلف بنایاکہ وہ حتی الامکان اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچائیں ،اگر خود اُن سے معاملہ حل نہ ہو اور خدانخواستہ آپس کے تعلقات بہت ہی خراب ہوجائیں، تو پھر بھی شریعت نے رشتہ نکاح کو توڑنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ یہ حکم دیا کہ میاں بیوی دونوں اپنی اپنی طرف سے ایک ایسا حکم ( پنچ ) اور ثالث مقرر کر لیں،جو مخلص اور خیر خواہ ہوں اوراُن کا مقصد اختلاف کو ختم کرانا ہو،اس لیے دونوں حکم پوری ایمانداری اور انصاف کے ساتھ اختلاف کا جائزہ لیں اور دونوں کے لیے ضابطہ طے کریں، جن باتوں کی وجہہ سے اختلاف ہوا ہے، اُن باتوں کو یا تو بند کرائیں یا اُن کے حدود مقرر کر دیں۔ ارشاد باری ہے: وان خفتم شقاق بینہما ، فابعثوا حکماً من أہلہ، وحکماً من أہلہا ۔

    مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی اور نا خوشگوار حالات کے مسئلہ کا ابتدائی حل طلاق دینا نہیں ہے، بلکہ اختلاف کے اسباب کو تلاش کر کے اُس پر روک لگانا ہے۔ صلح و صفائی کی مذکورہ تمام صورتوں کو اختیار کرنے کے بعد بھی ممکن ہے کہ حالات قابو میں نہ آئیں اور دونوں میں موافقت اور نبھاوٴ کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے، زوجین میں باہم اعتماد ختم ہوجائے اور اللہ تعالے کے قائم کردہ حدود و احکام کو پورا کرنا مشکل ہوجائے، تو ایسی آخری صورت میں بھی معاہدہ نکاح کو لازم قرار دینا ظاہر ہے کہ دونوں پر ظلم ہے ، ایسی صورت میں اُن کی زندگی تنگی و پریشانی کا بد ترین نمونہ بن جائے گی، جس کے نتیجے میں قابلِ نفرت گھناوٴنی اور ناپسندیدہ حرکتوں کے صادر ہونے کا امکان ہے، نیز اس میں خاندانی فوائد کے بجائے سیکڑوں مصیبتیں اور مضرتیں ہیں۔

     اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے؛ لیکن ایسے حالات میں بھی اگر طلاق کی بالکل ممانعت کر دی جائے، تو یہ نکاح دونوں کے لیے سخت فتنہ اور پریشانی کا سبب بن جائے گا،لہذا ایسی مجبوری میں شریعت اسلامی نے طلاق کی گنجائش دی ہے؛کیونکہ نکاح کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات اور سخت ضیق و تنگی کی حالت سے نکلنے کا پر امن اور پر سکون راستہ صرف طلاق ہے،اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، شریعت اسلامی کی طرف سے ایسے حالات میں طلاق رحمت پر مبنی ایک قانون ہے، جس میں مرد کو اجازت ہے کہ وہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کر لے، اسی طرح عورت بھی نکاح سے آزاد ہوکر چاہے تو دوسری جگہ اپنا نکاح کر لے ؛ لیکن ایسی آخری حالت میں بھی شریعت اسلام نے مرد کو یکبارگی تین طلاق دینے کی اجازت نہیں دی ؛ بلکہ یہ حکم دیا کہ وہ عورت کی پاکی کی حالت میں جس میں اُس کے ساتھ ہم بستری نہیں کی گئی ہو ایک طلاق دے کر اُس کو اپنے نکاح سے آزاد کر دے، یہ طلاق کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔

     تین طلاق دینا شریعت میں حد درجہ مبغوض اور گناہ ہے، جو شخص یکبارگی تین طلاق کا ارتکاب کرے گا، وہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سخت گنہگار ہوگا؛ لیکن اگر کسی نے تین طلاق دیدی، تو اُس کا واقع ہوکر عورت کا مغلظہ بائنہ ہوجانا بھی قرآن و حدیث سے ثابت اور جمہور امت کے نزدیک متفق علیہ مسئلہ ہے۔اسلام کے قانون طلاق سے متعلق یہ چند ضروری باتیں تشفی کے لیے لکھ دی گئی ہیں،ورنہ ایک مسلمان کی بندگی اور عبدیت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دیے ہوئے ہر حکم کو بغیر کسی تردد اور شبہہ کے قبول کرے ، خواہ اُس کی ناقص عقل حکم کی مصلحت اور حکمت کو سمجھ سکے یا نہ سمجھے، اللہ کا ہر حکم بندوں کے مصالح اور نظامِ عالم کے صلاح اور درستگی کے مطابق ہے۔نوٹ: نشہ کی حالت میں طلاق واقع ہونے سے متعلق دار العلوم/دیوبند کا ایک تفصیلی فتوی منسلک کیا جارہا ہے، ملاحظہ فرمالیں۔

    -----------------------------------------------------------

    نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق:

    (۱) اگر کوئی شخص نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے، تو کیا طلاق پڑ جائے گی ، اگر پڑ جائے گی ، تو اسی بیوی سے دوبارہ نکاح کی کیا صورت ہوگی؟ اس سلسلے میں راجح اور صحیح قول کیا ہے، اور اس کے دلائل کیا ہیں، جو لوگ حالت نشہ میں طلاق کے عدم وقوع کے قائل ہیں، وہ بھی اپنے قول کے دلائل پیش کرتے ہیں اور خاص طور پر وہ موجودہ زمانے کے حالات کا بھی دلائل کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں، اُن کے دلائل شریعت کی روشنی میں کہاں تک صحیح ہیں، جمہور کی طرف سے اُن کے دلائل کا کیا جواب ہے۔ واضح رہے کہ مشہور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنی کتاب ” جدید فقہی مسائل “ کے اندر صورت مذکورہ میں طلاق واقع نہ ہونے کے دلائل بیان فرمائیں ہیں اور اسی طرح دیگر فقہ اکیڈمی والے ، مثلا: قاضی مجاہد الاسلام صاحبرحمہ اللہ  وغیرہ بھی اسی کے قائل تھے۔

    (۲) اگر مذکورہ میاں بیوی فقہ اکیڈمی سے منسلک بعض مفتیان کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے آپس میں تعلق رکھیں ، تو اُن کا یہ تعلق رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

    ہر سوال کا جواب مکمل و مدلل ، نیز نہایت تسلی بخش عنایت فرمائیں۔

              المستفتی:

              سہیل اختر جالونی، متعلّم دار العلوم/دیوبند

              ۱۱/صفر ۱۴۳۷ھ

     

    س

    فتوی: 181-181/Sd=3/1437

    الجواب وباللہ التوفیق

    حامداً و مصلیاً و مسلما: (۱) اگر کسی نے اپنی رضامندی سے بالقصد کسی حرام نشہ آور چیز کا استعمال کیا اور اسے نشہ طاری ہوگیا، پھر نشے ہی کی حالت میں اُس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی، تو تینوں طلاقیں بلا شبہہ واقع ہو جائیں گی، طلاق حرام چیز سے نشہ کرنے کی حالت میں بھی واقع ہوجاتی ہے، جمہور علمائے امت کا یہی مسلک ہے، چنانچہ حضرت عمر فاروق، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم، حضرت سعید بن المسیب ،حضرت عطا، حضرت مجاہد، حضرت حسن بصری، محمد بن سیرین، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت شعبی ، حضرت میمون بن مہران ، حضرت حکم ، حضرت سفیان ثوری ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام اوزاعی، حضرت سلیمان بن حرب ، حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت امام ابو یوسف ، حضرت امام محمد بن حسن رحمہم اللہ وغیرہ سے صراحتاً یہی منقول ہے کہ نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے اوراکابر مفتیان کرام کی بھی یہی رائے ہے، چنانچہ حضرت مفتی عزیزالرحمان صاحب  رحمہ اللہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانویرحمہ اللہ ، حضرت مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہیرحمہ اللہ ، حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوریرحمہ اللہ ، حضرت مفتی یوسف صاحب لدھیانویرحمہ اللہ  کے اقوال اُن کے فتاوی کی کتابوں میں مذکور ہیں،نیز اس زمانے میں بھی اکابر مفتیان کرام نے اس مسئلے پر کافی غور و غوض کرنے کے بعد جمہور کے فیصلے ہی کو راجح قرار دیا ہے، جو لوگ نشے کی حالت میں طلاق کے واقع نہ ہونے کے قائل ہیں، اُن کا قول دلائل کے اعتبار سے نہایت کمزور ہے۔

    قال العثماني التھانوي: وأما طلاق السکران فأخرج ابن أبي شیبة أن عمر رضي اللّٰہ عنہ أجاز طلاق السکران بشہادة نسوة اھ و أخرج عن عطاء، و مجاہد، والحسن، وابن سیرین، وابن المسیب، و عمر بن عبد العزیز، وسلیمان بن یسار، والنخعي، والزہري، والشعبي؛قالوا: یجوز طلاقہ۔ وأخرج عن الحکم قال: من طلق في سکر من اللّٰہ، فلیس طلاقہ بشيء، ومن طلق في سکر من الشیطان، فطلاقہ جائز۔ وأخرج مالک في الموطأ ( بسند صحیح ) عن سعید بن المسیب و سلیمان بن یسار سئلا عن طلاق السکران، فقالا: اذا طلق السکران، جاز طلاقہ، وان قتل قتل۔ قال مالکرحمہ اللہ  وذلک الأمر عندنا۔(اعلاء السنن: ۱۱/۱۷۹، باب عدم صحة طلاق الصبي والمجنون والمعتوہ وصحتہ من المکرہ و السکران والہازل، ط: أشرفیة، دیوبند ، مصنف ابن أبي شیبة: ۴/۷۵،۷۶، باب من أجاز طلاق السکران، رقم: من: ۱۷۹۵۷الی: ۱۷۹۷۲، ط: الرشد، الریاض )

     وقال ابن الہمام: فقال بوقوعہ من التابعین سعید بن المسیب و عطاء، الحسن البصري، وابراہیم النخعي ، وابن سیرین، و مجاہد، وبہ قال مالک والثوري ، والأوزاعي، والشافعي في الأصح ، و أحمد في روایة۔ ( فتح القدیر:۳/۴۷۲، باب طلاق السنة، ط: زکریا، دیوبند )

     وقال ابن قدامة: في المسألة روایتان: أحدہما: یقع طلاقہ، اختارہا أبوبکر الخلال، والقاضي،وہو مذہب سعید بن المسیب، وعطاء، ومجاہد، والحسن، وابن سیرین، والشعبي، النخعي، ومیمون بن مہران،والحکم، ومالک ،والثوري، والأوزاعي، والشافعي في أحد قولہ، وابن شبرمة، وأبي حنیفة، وصاحبیہ،وسلیمان بن حرب لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل الطلاق جائز الا طلاق المعتوہ، ومثل ہذا عن علي و معاویة وابن عباس۔ قال ابن عباس : طلاق السکران جائز، ان رکب معصیةً من معاصي اللّٰہ، نفعہ ذلک۔ (المغني لابن قدامة:۷/۳۷۹، مسألة طلاق السکران، ط: مکتبة القاہرة، فتاوی دار العلوم: ۹/۶۹،بعنوان: حالت نشہ میں تین طلاق دی تو کیا حکم ہے؟، کفایت المفتی: ۶/۹۱، ۹۲، ۹۳، کتاب الطلاق، فصل سیزدہم: حالت نشہ میں طلاق دینا، ط:دار الاشاعت، کراچی، احسن الفتاوی: ۵/۱۸۲، کتاب الطلاق، بعنوان: حالت نشہ میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، ط: ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی،فتاوی محمودیہ: ۱۲/۲۸۴، کتاب الطلاق، باب وقوع الطلاق و عدم وقوعہ، الفصل الثالث فی طلاق السکران والمجنون، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ، کراچی، فتاوی رحیمیہ: ۸/۲۶۸،۲۷۳، کتاب الطلاق، ط: دار الاشاعت، کراچی،آپ کے مسائل اور اُن کا حل :۶/۶۴۲، بعنوان: نشہ کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، ط: مکتبہ لدھیانوی، کراچی )

    ذیل میں جمہور کے مسلک کے دلائل ذکر کیے جاتیں ہیں:

    (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: الطلاق مرتان، فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ۔۔۔۔۔الی قولہ: حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (البقرة: ۲۲۹، ۲۳۰ ) طلاق کے سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت اصل کی حیثیت رکھتی ہے،اِس آیت میں نشہ اور غیر نشہ کی طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح غیر نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو، چنانچہ علامہ کاسانیرحمہ اللہ  نے نشے کی حالت میں طلاق کے واقع ہونے پر اسی آیت کے عموم سے استدلا ل کیا ہے۔

    واضح رہے کہ فقہائے کرام نے جن مخصوص صورتوں میں طلاق کے عدم وقوع کا حکم لگایا ہے، مثلا: مجنون، بے ہوش، نابالغ اور اضطرار اور اکراہ کی بعض صورتوں کی طلاق؛اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سلسلے میں خاص طور پر دوسری نصوص وارد ہوئی ہیں، ان مخصوص نصوص کی وجہ سے مذکورہ آیت کے عموم میں تخصیص کر لی گئی ، لیکن نشے کی حالت میں طلاق کے عدم وقوع پر کوئی نص نہیں ہے، اس لیے نشے کی حالت کی طلاق مذکورہ آیت کے عموم مین داخل ہوکر واقع ہوجائے گی ۔

    قال الکاسانيرحمہ اللہ :ولنا عمومُ قولہ عزّ وجلّ: الطّلاقُ مرّتان۔۔۔الی قولِہ تعالی: فان طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِن بَعد، حَتّی تَنکِحَ زَوجاً غَیرَہ۔۔۔ من غیر فصل بین السّکران و غیرہ الا من خص بدلیل۔ ( البدائع: ۳/۱۵۹، فصل شرائط رکن الطلاق، ط: زکریا، دیوبند ) قال علي رضي اللّٰہ عنہ: وکل الطلاق جائز الا طلاق المعتوہ۔ (البخاري تعلیقاً: ۲/۷۹۳، ۷۹۴، باب الطلاق في الاغلاق والکرہ والسکران، ط: مکتبة بلال، دیوبند، والترمذي: ۱/۵۲۳، باب ما جاء في طلاق المعتوہ، ط: مکتبة شیخ الاسلام، دیوبند ) رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتی یستیقظ، عن الصبي حتی یبلغ، عن المعتوہ حتی یعقل، وفي روایة: عن المجنون حتی یفیق۔ (البخاري تعلیقاً: ۲/۷۹۳، ۷۹۴، باب الطلاق في الاغلاق والکرہ والسکران، ط: مکتبة بلال، دیوبند، و أبو داوٴد: ۲/۶۰۴، کتاب الحدود، باب في الجنون یسرق أو یصیب حداً، ط: دار الکتاب، دیوبند )

    (۲) اللہ تعالی کا فرمان ہے: یا أیہا الذین آمنوا لا تقربوا الصَّلاة وأنتم سکاری۔( النساء: ۴۳ ) علامہ ابن الہمامرحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اِس آیت میں نشہ کرنے والوں کو خطاب کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ نشہ کرنے والے احکام خداوندی کے مخاطب ہیں اور شریعت میں وہ ا حکام کے مکلف ہیں؛ لہذا ُن کے تصرفات نافذ ہونگے اور اُن کی دی ہوئی طلاق واقع ہوگی؛ اس لیے کہ مذکورہ آیت میں اگر خطاب حالتِ سکر میں ہے، تو یہ نص ہے اور اگر خطاب حالت سکر سے پہلے ہے، تو ضروری ہوگا وہ حالت سکر میں اللہ کے فرمان کے مخاطب ہوں، ورنہ تو خطاب خداوندنی کا لغو ہونا لازم آئے گا ۔

     قال ابن الہمام قلنا: لما خاطبہ الشرع في حال سکرہ بالأمر والنہي بحکم فرعي، عرفنا أنہ اعتبرہ کقائم العقل تشدیداً علیہ في الأحکام الفرعیة، و عقلنا أن ذلک یناسب کونہ تسبب في زوال عقلہ بسبب محظور، وہو مختار فیہ، فأدرنا علیہ، واعتبرنا أقوالہ۔ وعلی ہذا اتفق فتاوی مشایخ المذہبین من الشافعیة والحنفیة بوقوع طلاق من غاب عقلہ بأکل الحشیش۔۔۔أما ذلک الخطاب فقولہ تعالی: یا أیہا الذین آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سکاری؛ لأنہ ان کان خطاباً لہ حال سکرہ فنص، وان کان قبل سکرہ، یستلزم أن یکون مخاطباً في حال سکرہ؛ اذ لا یقال: اذا جننت، فلا تفعل کذا۔ ( فتح القدیر:۳/۴۷۲،۴۷۳، کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، ط: زکریا، دیوبند،وکذا في البحر الرائق:۳/۴۳۱، کتاب الطلاق، ط: زکریا، دیوبند )وقال ابن نجیم نقلاً عن الخانیة من کتاب الخلع: سائر تصرفات السکران جائزة الا الردة والاقرار بالحدود والاشہاد علی شہادة نفسہ۔ ( البحر الرائق:۳/۴۳۲، کتاب الطلاق، ط: زکریا، دیوبند )

    (۳) حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہیں: ”کل الطلاق جائز الا طلاق المعتوہ“۔ مدہوش کے علاوہ ساری طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے تعلیقا ذکر کیا ہے اور ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے مرفوعا ذکر کیا ہے، یہ حدیث بھی عام ہے، جس میں سوائے اُن لوگوں کے جن کو کسی دوسری دلیل سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ہر شخص کی طلاق کے وقوع کا حکم لگایا گیا ہے، جس میں حالت نشہ کی طلاق بھی داخل ہے۔ ( البخاري تعلیقاً: ۲/۷۹۳، ۷۹۴، باب الطلاق في الاغلاق والکرہ والسکران، ط: مکتبة بلال، دیوبند، والترمذي عن أبي ہریرة مرفوعاً: ۱/۵۲۳، باب ما جاء في طلاق المعتوہ )

    (۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سنجیدگی تو سنجیدگی ہے ہی ، اُن میں دل لگی کے طور پر کہی ہوئی بات بھی حقیقت میں سنجیدگی ہی سمجھی جاتی ہے، وہ تین چیزیں: نکاح، طلاق اور رجعت ہیں۔ عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاث جدہن جد، وہزلہن جد: النکاح، والطلاق، والرجعة۔ ( الترمذي: ۱/۵۲۱، باب ما جاء في الجد والہزل في الطلاق، ط: مکتبة شیخ الاسلام، أبو داوٴد:۱/۲۹۸، باب في الطلاق علی الہزل،ط:دار الکتاب، دیوبند ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر طلاق کا صدور اُس کے اہل کی طرف سے ہو، تو محض الفاظ کے تکلم سے طلاق کا وقوع ہوجاتا ہے، خواہ طلاق کا تکلم کرنے والا طلاق کا حقیقی مفہوم مراد نہ لے اور جو شخص اپنے اختیار سے کوئی حرام نشہ آور چیز استعمال کرتا ہے، تو شریعت میں وہ مکلف رہتا ہے (جیساکہ ماقبل میں علامہ ابن الہمامرحمہ اللہ  اور علامہ ابن نجیم کا قول مذکور ہوا ہے ) لہذا اُس کی دی ہوئی طلاق واقع ہو گی خواہ حقیقت میں اُ س کا ااردہ طلاق دینے کا نہ ہو ۔

    (۵) تمام فقہاء متفق ہیں کہ حدد و قصاص کے حکم میں نشہ کرنے والا شخص صاحی ( باہوش) آدمی کی طرح ہے، یعنی: اگر وہ کسی پر تہمت لگاتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے ، تو اُس پر حد جاری کی جائے گی ، پس جب حدود و قصاص کے باب میں ۔۔۔جو شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتے ہیں۔۔۔نشہ کرنے والے کو مکلف قرار دیا گیا ہے ، تو طلاق کے باب میں۔۔۔جس کا حکم شبہہ سے ساقط نہیں ہوتا۔۔۔ بدرجہ اولی اُس کو باہوش کے درجے میں مان کر مکلف قرار دیا جائے گا اور اُس کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ روی أبو وبرة الکلبي قال : أرسلني خالد الی عمر، فأتیتہ في المسجد، ومعہ عثمان، و علي، و طلحة، والزبیر۔ فقلتُ: ان خالداً یقول: ان الناس انہمکوا في الخمر، وتحاقروا العقوبة۔ فقال عمر: ہوٴلاء عندک۔ فسلہم، فقال علي: نراہ اذا سَکِرَ، ہَذَی، واذا ہَذَی، افتری، وعلی المفتري ثمانون، فقال عمر: ابلغ صاحبک ما قال۔ قال ابن قدامة: فجعلوہ کالصاحي؛ ولأنہ ایقاع للطلاق من مکلف غیر مکرہ صادف ملکہ، فوجب أن یقع کطلاق الصاحي۔ ویدل علی تکلیفہ أنہ یقتل بالقتل، وتقطع بالسرقة، وبہذا فارق المجنون۔ ( المغني لابن قدامة:۷/۳۷۹، مسألة طلاق السکران، ط: مکتبة القاہرة ) وقال ابن الہمام: وبدلالات النصوص والاجماع؛ فانہ لما ألحق بالصاحي فیما لا یثبت مع الشبہة، وہو الحد والقصاص حتی حد و قتل اذاقذف و قتل، فلأن یلحق بہ فیما یثبت مع الشبہة کالطلاق والعتاق أولی۔( فتح القدیر:۳/۴۷۲،۴۷۳، کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، ط: زکریا، دیوبند ) و في حاشیة الموطأ للامام مالک: واستدلوا بقول الصحابة في قصة الاتفاق علی أن حد السکر حد المفتري؛ لأنہ اذا سکر افتری، فلو لا أنہ یوٴاخذ بافترائہ، لم یحدوہ حد المفتري۔ ( حاشیة الموطأ للامام مالک، ص: ۲۱۶، ط: یاسر ندیم، دیوبند )

    (۶) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نشہ کی وجہ سے اُس پر حد جاری کی اور اُ سکی طلاق کو نافذ قرار دیا۔ عن سلیمان بن یسار یقول: ان رجلاً من آل البختري طلق امرأتہ وہو سکران، فضربہ عمر الحد، وأجاز علیہ طلاقہ۔ ( سنن سعید ابن منصور :۱/۲۷۰، باب ماجاء في طلاق السکران، رقم: ۱۱۰۶ )

    (۷) مسئلہ حلت و حرمت کا ہے، یعنی عدم وقوعِ طلاق کا مطلب ہے کہ عورت شوہر کے لیے حلال ہے اورقوعِ طلاق کا مطلب ہے کہ عورت شوہر کے لیے حرام ہوگئی ، ایسے موقع پر فقہاء احتیاطاً حرمت کے پہلو کو ترجیح دیتے ہیں ؛ لہذا اس کا بھی تقاضا یہ ہے کہ سکران کی دی ہوئی طلاق واقع قرار دی جائے۔ قال ابن نجیم:اذا اجتمع الحلال والحرام، غلب الحرام۔ (الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ص: ۷۰، النوع الثاني من الفن الأول، القاعدة الثانیة، ط: مکتبة دار العلوم، دیوبند )

    جو حضرات حالت نشہ کی طلاق کو واقع نہیں مانتے ہیں، وہ عموما مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرتے ہیں:

    (۱) اللہ تعالی نے سکران کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ کیا کہہ رہا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: یا أیہا الذین آمنوا لا تقربوا الصَّلاة وأنتم سکاری، حتی تعلموا ما تقولون۔( النساء: ۴۳ ) گویا اُ سکے اندر فہم کی صلاحیت نہیں ہوتی، لہذا سکران شرعا مکلف نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ جو شخص سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ احکام شرع کا مکلف کیسے ہوسکتا ہے، مکلف ہونے کے لیے عقل و فہم کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اور سکران کے اندر یہ صلاحیت مفقود ہے، لہذا اُس کی طلاق واقع نہیں ہوگی ؛ اس لیے کہ غیر مکلف کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

    اس استدلال کو اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے، تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالی نے غیر مکلف کو خطاب کیا ہے ، ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کا غیر مکلف کو خطاب کرنا محال ہے، پس یہ استدلال صحیح نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ سکران کے اندر فہم کی صلاحیت تو ہے ؛ لیکن سکر کی وجہ سے اُس پر ایک قسم کا پردہ پڑجاتا ہے، جس کا شریعت نے مکلف قرار دینے میں کوئی اعتبار نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حدود و قصاص کے باب میں سکران کے مکلف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سکران اگر مکلف ہے، تو اُس کا ارتداد بھی معتبر ہونا چاہیے؛ حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ احتیاط کافر قرار نہ دینے میں ہے، نیز ایمان اور ارتداد کا رکن اعتقاد ہے اور حالت سکر میں یہ نہیں پایا جاتا، لہذا اُس کا ارتداد غیر معتبر قرار دیا جائے گا۔ علامہ ابن الہمامرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: وعدم صحة ردتہ؛ لأن صریح النص ما اعتبر عقلہ باقیاً الا فیما ہو من فروع الدین ۔۔ولأن الاکفار والحالة ہذہ انما یکون احتیاطاً، ولا یحتاط في الاکفار ؛ بل یحتاط في عدمہ؛ولأن رکنہا الاعتقاد ، وہو منتف۔ ( فتح القدیر:۳/۴۷۲،۴۷۳، کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، ط: زکریا، دیوبند )

    (۲) حالت نشہ میں طلاق کے عدم وقوع پر یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہر عمل کا مدار نیت و ارادہ پر ہے، پس وقوع طلاق کا مدار بھی نیت و ارادہ پر ہوگا اور نشہ کی حالت میں چونکہ ارادہ نہیں ہوتا؛ اس لیے سکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی .

    یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ طلاق کا وقوع نیت پر موقوف نہیں ہے، جیساکہ صراحتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ” ثلاث جدہن جد، و ہزلہن جد الخ“ کی تفصیل ما قبل میں گذر چکی ہے، لہذا یہ کہنا کہ طلاق کا مدار نیت پر ہے، صحیح نہیں ہے۔

    (۳) حالت نشہ میں طلاق کے عدم وقوع پر یہ دلیل بھی بہت اہمیت سے پیش کی جاتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ عقل نہ ہونے کی و جہ سے صبی( بچہ ) بے ہوش، معتوہ اور سونے والے کی طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا ان پر قیاس کرتے ہوئے حالت نشہ کی بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ؛ اس لیے کہ سکران کی بھی عقل زائل ہوجاتی ہے ۔ حالت نشہ میں طلاق کے عدم وقوع کے قائلین کی یہ دلیل اُن کی دوسری ساری دلیلوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ؛ اس لیے کہ ساری دلیلوں کا بنیادی نکتہ زائل العقل ہونا ہی ہے ۔

    اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے انسان کی جان و مال، عزت و آبرو اور عقل و خرد کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے ، اگر کوئی شخص اپنے ہاتھوں ان چیزوں کو زائل کرتا ہے،تو شریعت کی نگاہ میں وہ مجرم کہلائے گا اور قیامت کے دن وہ ماخوذہوگا؛ لہذااگر کوئی شخص حرام اور ناجائز اشیاء کا استعمال کر کے اپنی عقل ضائع کرتا ہے ، تو اگرچہ وہ حقیقتا زائل العقل ہے ؛ لیکن زجر اور توبیخ کے طور پر اسے حکما عاقل ہی کے درجے میں مانا جائے گا اور نشے کی حالت میں بھی اس کو احکام شرع کا مکلف قرار دیا جائے گا ، اس حالت میں صادر ہونے والے اُس کے اقوال و افعال کو شرعاً معتبر قرارد یا جائے گا، لہذا حالت نشہ میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیدیتا ہے، تو زجراً اُس کی طلاق واقع ہوگی۔

    علامہ کاسانیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ولأن عقلہ زال بسبب ہو معصیة، فینزل قائماً عقوبةً علیہ، وزجراً لہ عن ارتکاب المعصیة، ولہذا لو قذف انساناً أو قتل، یجب علیہ الحد والقصاص وانہما لا یجبان علی غیر العاقل، دل أن عقلہ جعل قائماً، وقد یعطي للزائل حقیقة حکم القائم تقدیراً ۔ ( بدائع الصنائع :۳/۱۵۹، کتاب الطلاق، فصل شرائط رکن الطلا، ط: زکریا، دیوبند )

    علامہ شامیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: قولہ: (أو أفیون أو بنج ) وصرح في البدائع وغیرہا بعدم وقوع الطلاق بأکلہ معللاً بأن زوال عقلہ لم یکن بسبب ہو معصیة۔ والحق التفصیل، وہو ان کان للتداوي، لم یقع لعدم المعصیة، وان للہووادخال الآفة قصداً ، فینبغي أن لا یتردد في الوقوع ۔ وفي تصحیح القدوري عن الجواہر: وفي ہذا الزمان اذا سکر من البنج و الأفیون، یقع زجراً وعلیہ الفتوی۔( رد المحتار مع الدر المختار: ۴/۴۴۶، کتاب الطلاق مطلب في الحشیشة والأفیون والبنج، ط: دار الفکر، بیروت )

    (۴) بعض حضرات نے حالتِ نشہ میں طلاق کے واقع نہ ہونے کی وجہ موجودہ زمانے کے حالات کو قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جن فقہائے کرام نے طلاق سکران کو نافذ قرار دیا ہے، بنیادی طور پر اُن کے پیش نظر شوہر کی تعزیر ہے ، مگر موجودہ حالات میں خصوصا ہندوستان میں یہ طلاق شوہر کے لیے تعزیر کے بجائے عورت کے لیے ایک عذاب بن کر رہ گئی ہے ، صورتحال یہ ہے کہ نشہ کرنے والا شخص طلاق دے کر دوسری شادی آسانی سے کر لیتا ہے ؛ مگر مطلقہ غریب عورتیں عمر بھر شوہر کے جرم کا کفارہ اداء کرتی رہتی ہیں، اس لیے ان حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ طلاق سکران کو واقع قرار نہ دیا جائے ؛ کیونکہ اس کی علت ” شوہر کی تعزیر“ اس زمانے میں مفقود ہوچکی ہے اور حکم اپنی علت ہی کے ساتھ دائر رہتا ہے۔

    حالتِ نشہ میں طلاق کے عدم وقوع کے قائلین کے نزدیک یہ دلیل نہایت اہمیت کی حامل ہے ، جو لوگ اس حالت میں دی ہوئی طلاق کو واقع نہیں مانتے ہیں، انہوں نے اپنی تحریروں میں اس وجہ کو بہت اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے، چنانچہ جدید فقہی مسائل میں ہے: ” مسئلہ صرف دلائل کے قوی اور کمزور ہونے کا نہیں ہے ۔۔۔۔۔؛بلکہ حالات وزمانے کے تغیر اور اخلاقی و سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے تقاضوں کا ہے ۔۔۔۔ہندوستان اور اس جیسے ممالک میں جہاں نہ اسلامی قانون نافذ ہے ، نہ شراب کوئی جرم ہے ، نہ اُس کی شناعت و قباحت کما حقہ لوگوں پر عیاں ہے ، اُ سکے کاروبار کی کھلی اجازت ہے اور مطلقہ عورتوں کا نکاح ثانی ہندو رسم و رواج کے اثر سے ایک گمبھیر مسئلہ ہے، مناسب ہوگا کہ حالت نشہ کی طلاق واقع قرار نہ دی جائے “ ( جدید فقہی مسائل : ۳/۲۲۰ )

    اس دلیل کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ طلاق سکران کے وقوع کی علت شوہر کی تعزیر نہیں ہے، شوہر کی تعزیر تو اس حکم کی حکمت اور مصلحت ہے اور حکم کا مدار حکمت اور مصلحت پر نہیں ہوتا ۔ اور یہ کہنا کہ” طلاق سکران موجودہ قت میں شوہر کی تعزیر کے بجائے عورت کے لیے عذاب بن کر رہ گئی ہے“ صحیح نہیں ہے ؛ اس لیے کہ عموما طلا ق سکران کے وقوع ہی کی وجہ سے عورتوں کو شرابی مردوں سے نجات ملتی ہے ،مہذب اور شریف عورتیں شرابی اور نشہ کرنے والے شخص کے ساتھ رہنا پسند نہیں کر تیں، اگر طلاق سکران کو واقع قرار نہ دیا جائے، تو اس میں عورت کو اور زیادہ ضیق اور تنگی میں مبتلا کرنا ہے، عورت کے لیے تو یہ عذر ہوسکتا ہے کہ وہ شریف تھی، مہذب تھی ، شرابی اور نشہ کرنے والے شخص کے ساتھ اُ س کا رہنا بالکل مناسب نہیں تھا، لہذا مصلحت اسی میں تھی کہ اُس کے اور شوہر کے درمیان تفریق کی کوئی صورت نکل آئے اور جب شوہر نے اُس کو طلاق دیدی، تو یہ طلاق معاشرے میں عورت کا جرم نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ معاشرے میں ایسی عورت پر ہمدردی ہوگی اور اُس کے دوسرا نکاح میں دشواری نہیں ہوگی؛ لیکن طلاق دینے والے شوہر کے لیے معاشرے میں کوئی ہمدردی نہیں ہوگی ، لوگوں میں اس کی رسوائی ہی رسوائی ہوگی اور آیندہ لوگ اُس سے اپنی لڑکی یا خاندان کو منسوب کرنے میں غور و فکر کریں گے، اس طرح شوہر آج کے بگڑے ہوئے معاشرے میں بھی مردود سمجھا جائے گا اور اپنے کیے کی سزا بہرحال بھگتے گا، لہذا یہ کہنا کہ طلاق سکران اس زمانے میں عورت کے لیے عذاب بن گئی ہے، اس میں شوہر کی تعزیر کی وجہ ختم ہوگئی ہے، صحیح نہیں، آج بھی اس طلاق کے واقع ہونے میں شوہر کی تعزیر ہے ۔ اور اگر بالفرض اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طلاق سکران شوہر کی تعزیر کے بجائے عورت کے لیے سزا بن کر رہ گئی ہے“ تو واضح رہے کہ طلاق خواہ کسی حالت میں دی جائے، وہ تو عموما عورتوں کے لیے کچھ نا کچھ دشواری اور مشکلات کا سبب بنتی ہی ہے ، ہمارے ملک میں کم ہی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں طلاق کے حوالے سے شریعت کی حدود کی رعایت کی جاتی ہو، ورنہ طلاق کے اکثر واقعات غصے، جذبات، آپسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے پیش آتے ہیں، تو کیا ان صورتوں میں بھی محض مشکلات اور دشواریوں کی وجہ سے طلاق کو واقع قرار نہیں دیا جائے گا؟

    نیز اگر طلاق سکران کو واقع قرار نہ دیاجائے، تو اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی ، اس طلاق کے وقوع میں جو تعزیر کا پہلو تھا ، جب اس کو ختم کردیا جائے گا، تو ظاہر ہے کہ اُ س کے منفی اثرات معاشرے پر ظاہر ہونگے، طلاق دینے والوں کے لیے وقوع طلاق سے بچنے کا ایک بہانہ اور حیلہ ہاتھ آجائے گا ، لوگوں میں شراب اور نشہ آور اشیاء کا استعمال مزید عام ہوجائے گا اور عورتوں کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہوجائیں گی، اس لیے اس زمانے میں بھی راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ حرام چیز سے نشہ کرنے کی صورت میں اگر طلاق دی جائے گی، تو شرعا وہ طلاق واقع ہوگی۔اس زمانے میں کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے اس مسئلے میں ضعیف اور غیر مفتی بہ قول کو اختیار کیا جائے۔چنانچہ ادارة المباحث الفقہیہ/ جمعیة علمائے ہند کے تحت ۲۶۔۲۷/ رجب ۱۴۲۱ھ مطابق ۲۵۔۲۶ /اکتوبر ۲۰۰۰ء بمقام شیخ الہند ہال دیوبند میں منعقدہ فقہی اجتماع میں متفقہ طور پر طلاق سکران کے وقوع کا فیصلہ کیا گیا تھا ، اُس اجتماع کی تجویز ملاحظہ فرمائیں: ” ادارة المباحث الفقہیہ جمعیة علمائے ہند کا ساتواں فقہی اجتماع ( منعقدہ : ۲۶۔۲۷/ رجب ۱۴۲۱ھ مطابق ۲۵۔۲۶ /اکتوبر ۲۰۰۰ء ) یہ اعلان کرتا ہے کہ بلا عذر شرعی اختیاری طور پر ناجائز نشیلی اشیاء سے پیدا شدہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جائے گی ، یہی احادیث شریفہ سے مستنبط، نیز آثار صحابہ وتابعین سے ثابت اور حضرات ائمہ اربعہ کا مفتی بہ ومعمول بہ مسلک ہے اور اس زمانے میں کہیں بھی کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں پائی جاتی کہ اس مفتی بہ اور راجح قول سے عدول کر کے مرجوح اور ضعیف قول کو اختیار کیا جائے ۔ یہ فقہی اجتماع محسوس کرتا ہے کہ موجودہ دور میں نشہ کی طلاق کے عدم وقوع کا قول اختیار کرنے کی صورت میں طلاق دینے والوں کو طلاق کے وقوع سے بچنے کا ایک بہانہ ہاتھ آجائے گا اور عورتوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث ہوگا “ ( فقہی اجتماعات کے اہم فقہی فیصلے اور تجاویز ، ص: ۶۲ )

    ماقبل کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حالت نشہ کی طلاق واقع ہوجاتی ہے، یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے کسی حرام نشہ آور چیز استعمال کر نے کے بعد نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہیں، تو بلا شبہ اُس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور بیوی مغلظہ بائنہ ہوگئی، اب حلالہ شرعی کے بغیر شوہر کے لیے مطلقہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں ہے۔

     طلاق سکران کے واقع ہونے کے سلسلے میں فقہائے کرام کے چند اہم اقوال ملاحظہ فرمائیں:

    امام مالکرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: انہ بلغہ أن سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار سئلا عن طلاق السکران، فقالا : اذا طلق السکران، جاز طلاقہ، وان قتل، قتل۔ قال مالک: وذلک الأمر عندنا۔ ( الموطأ للامام مالک، ص: ۲۱۶، جامع الطلاق، ط: یاسرندیم، دیوبند )

    علامہ حصکفیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولو تقدیراً لیدخل السکران ولو عبداً أو مکرہاً أو ہازلا أو سفیہاً خفیف العقل أو سکران ولو بنبیذ أو حشیش أو أفیون أو بنج زجراً۔ وبہ یفتی۔ ( الدر المختار مع رد المحتار:۴/۴۳۸۔۔۔۴۴۶، کتاب الطلاق، ط: زکریا، دیوبند )

     علامہ شامی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : حکمہ أنہ ان کان سکرہ بطریق محرم، لا یبطل تکلیفہ، فتلزمہ الأحکام، و تصح عباراتہ من الطلاق والعتاق۔۔۔ وفي البحر عن البزازیة المختار في زماننا لزوم الحد و وقوع الطلاق اھ وما في الخانیة من تصحیح عدم الوقوع، فہو مبني علی قولہما من أن النبیذ حلال، والمفتی بہ خلافہ۔ وفي النہر عن الجوہرة: أن الخلاف مقید بما اذا شربہ للتداوي، فلو للہو والطرب، فیقع بالاجماع۔ ( رد المحتار مع الدر المختار:۴/۴۴۴۔۔۔۴۴۵، کتاب الطلاق، مطلب في تعریف السکران و حکمہ، ط: زکریا، دیوبند )

    علامہ شامیرحمہ اللہ  مزید فرماتے ہیں: وفي تصحیح القدوري عن الجوہر: وفي ہذا الزمان اذا سکر من البنج والأفیون یقع زجراً وعلیہ الفتوی۔۔۔۔وقال نقلاً عن التاتارخانیة:طلاق السکرن واقع اذا سکر من الخمر أو النبیذ وہو مذہب أصحابنا۔ ( رد المحتار مع الدر المختار:۴/۴۴۶۔۔۔۴۴۸، کتاب الطلاق، مطلب في الحشیشة والأفیون والبنج، ط: زکریا، دیوبند )

    علامہ کاسانیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: وأما السکران اذا طلق امرأتہ، فان کان سکرہ بسبب محظور بأن شرب الخمر أو النبیذ طوعاً حتی سکر، وزال عقلہ، فطلاقہ واقع عند عامة العلماء وعامة الصحابة رضي اللّٰہ عنہم۔ ( بدائع الصنائع:۳/۱۵۸، فصل شرائط رکن الطلاق،ط: زکریا، دیوبند )

    علامہ ابراہیم الحلبیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ویقع طلاق کل زوج عاقل بالغ ولو مکرہاً أو سکران۔۔۔

    (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر:۲/۹۔۔۱۰، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

    علامہ علاء الحصکفیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: وکذا یقع طلاق من غیب عقلہ بأکل الحشیش أو البنج أو الأفیون؛ لأن کل ذلک حرام۔۔ ( الدر المنتقی مع مجمع الأنہر: ۲/۱۰، کتاب الطلاق، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت )

    فتاوی ہندیہ میں ہے: وطلاق السکران واقع اذا سکر من الخمرأوالنبیذ وہو مذہب أصحابنا رحمہم اللّٰہ ۔ (الفتاوی الہندیة: ۱/۴۲۰، کتاب الطلاق، الباب الأول، فصل فیمن یقع طلاقہ وفیمن لایقع طلاقہ، ط: مکتبة الاتحاد، دیوبند )

    الموسوعة الفقہیة میں ہے: وان کان متعدیاً بسکرہ کأن شرب الخمرة طائعاً بدون حاجة، وقع طلاقہ عند الجمہور رغم غیاب عقلہ بالسکر، وذلک عقابا لہ ۔ ( الموسوعة الفقہیة: مادة : طلاق )

    الفقہ الاسلامي و أدلتہ میں ہے: أما السکران بطریق محرم۔۔۔وہو الغالب۔۔۔ بأن شرب الخمر عالماً بہ مختاراً لشربہ ۔۔۔فیقع طلاقہ في الراجح في المذاہب الأربعة عقوبةً و زجراً لہ عن ارتکاب المعصیة۔ ( الفقہ الاسلامي وأدلتہ:۷/۳۶۶، المبحث الثاني من الباب الثاني، ط: دار الفکر، دمشق )

    امام شافعیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ومن شرب خمراً أو نبیذاً، فأسکرہ، فطلق، لزمہ الطلاق والحدود کلہا۔ ( کتاب الأم: ۵/۲۷۰، طلاق السکران، ط: دار المعرفة، بیروت )

    علامہ ابن رشد مالکیرحمہ اللہ  فرماتے ہیں: وأما طلاق السکران فالجمہور من الفقہاء علی وقوعہ۔ ( بدایة المجتہد:۲/۶۱۔۔۶۲ )

    (۲) حالت نشہ میں تین طلاق دینے کے بعد جمہور کے نزدیک شوہر کا مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے، اس مسئلہ میں اگرچہ بعض لوگوں کا قول طلاق کے عدم وقوع کا ہے، لیکن جمہور صحابہ، تابعین، اور ائمہ اربعہ کا راجح اور صحیح قول طلاق کے وقوع ہی کا ہے، متون کی روایت بھی یہی ہے، لہذا اگر کوئی شخص حالت نشہ میں تین طلاق دے کر اُن لوگوں کے قول کے مطابق عمل کرنا چاہے، جن کے نزدیک اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، تو جمہور کے نزدیک اُ س کے لیے ضعیف اور مرجوح قول پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند