• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 602169

    عنوان:

    تسبیح فاطمی وغیرہ کا وقت کونسا ہے ؟ نماز سے متصلا یا سنتوں سے فراغت کے بعد؟

    سوال:

    کیا فرض نماز کے بعد سنت اور نوافل سے پہلے تسبیح فاطمی اور آیةالکرسی کی تلاوت کی جاسکتی ہے ؟ تسبیح فاتمی اور آیةالکرسی کب پڑھناہے ؟ کیا فرض نماز کے بعد سنت اور نوافل کے بعد تسبیح فاطمی اور آیةالکرسی کی تلاوت کرنے کا صحیح وقت ہے ؟ تسبیح فاطمی اور آیةالکرسی کی تلاوت کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟

    جواب نمبر: 602169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:417-122/sn=6/1442

    جن نمازوں کے بعد سنن موٴکدہ نہیں ہیں یعنی عصر اور فجران میں تو فرض نماز سے فراغت کے فوراً بعد یہ تسبیحات پڑھنی چاہئیں؛ لیکن جن نمازوں کے بعد سنن موٴکدہ ہیں یعنی ظہر،مغرب اور عشا ان میں سنن سے فراغت کے بعد یہ تسبیحات پڑھی جائیں گی، حضرت عائشہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرض نماز اور سنن مؤکدہ کے درمیان صرف اللہم أنت السلام الخ کی یا اس سے ملتی جلتی دعاؤوں کی مقدار تاخیر فرماتے تھے ؛ اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں ہے ، مکروہ تنزیہی ہے ۔

    ویکرہ تأخیر السنة إلا بقدر اللہم أنت السلام إلخ قال الحلوانی: لا بأس بالفصل بالأوراد واختارہ الکمال. قال الحلبی: إن أرید بالکراہة التنزیہیة ارتفع الخلاف، قلت: وفی حفظی حملہ علی القلیلة...(قولہ إلا بقدر اللہم إلخ) لما رواہ مسلم والترمذی عن عائشة قالت کان رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - لا یقعد إلا بمقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام، وأما ما ورد من الأحادیث فی الأذکار عقیب الصلاة فلا دلالة فیہ علی الإتیان بہا قبل السنة، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنة من لواحق الفریضة وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیة عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضة. وقول عائشة بمقدار لایفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر ما یسعہ ونحوہ من القول تقریبا إلخ (الدر المختار مع رد المحتار: 2/247، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند