عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 59587
جواب نمبر: 59587
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 452-452/Sd=8/1436-U شریعت میں امامت کا منصب ایک عظیم منصب ہے، مسلمانوں پر اس منصب پر فائز ہوئے شخص کا احترام کرنا ضروری ہے، ذاتی رنجش اور نفسانی اغراض کی بنا پر بعض مقتدیوں کا امام صاحب کو متہم کرنا، ان پر الزام تراشیاں کرنا لوگوں کے مابین ان کے بارے میں غلط اور من گھڑت باتیں مشہور کرنا سخت ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، شریعت نے امام صاحب کے تعلق سے بعض مقتدیوں کی کی ناراضگی کو اتنی اہمیت نہیں دی ہے کہ جس کی وجہ سے امام صاحب کو منصب امامت سے معزول کردیا جائے، ہاں اکر سارے یا اکثر مقتدی امام صاحب سے کسی شرعی قباحت کی بنا پر ناراض ہوں، تو امام کو اپنی کمی دور کرنا چاہیے، ورنہ ان کی امامت مکروہ ہوگی، عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ثلاثة لا یقبل اللہ منہم صلاة: من تقدم قومًا وہم لہ کارہون (أبو داوٴد، رقم: ۵۹۳) وقد قید ذلک (الکراہة) جماعة من أہل العلم بالکراہة الدینیة بسبب شرعي، فأما الکراہة لغیر الدین، فلا عبرة بہا، وقیدوہ أیضًا بأن یکون الکارہون أکثر المأمومین، ولا اعتبار بکراہة الواحد ولا اثنین والثلاثة إذا کان الموٴتمون جمعًا کثیرًا (بذل المجہود: ۱/۲۹۳) وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ، ومع ہذا یکرہونہ، لا یکرہ لہ اتفاقًا؛ لأن الجاہل والفاسق یکرہ العالم والصالح․ (شامي: ۲/۲۹۷، ط: زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند