• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 59587

    عنوان: صرف بعض مقتدیوں کے مشورہ کی یاان کی ناراضگی کی اتنی اہمیت ہوسکتی ہے کہ وہ امام کہ پیچھے نماز نہ پڑھنے پرامام کونکال دیاجائے

    سوال: عام طورپردیکھاجارہاہے کہ امام سے ذاتی رنجش کی بناء پر بعض مقتدی حضرات امام کہ پیچھے جماعت سے نماز ادانہیں کرتے ،یاپھر اس مسجدکوچھوڑدیتے ہیں ،اور عوام میں یہ چرچے کراتے ہیں کہ فلاں امام ہماراہم خیال نہیں ہے ،یاہمارے مشورے پرعمل نہیں کرتا،جبکہ اکثرمقتدی اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور انھیں امام سے کوئی شکایت نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف بعض مقتدیوں کے مشورہ کی یاان کی ناراضگی کی اتنی اہمیت ہوسکتی ہے کہ وہ امام کہ پیچھے نماز نہ پڑھنے پرامام کونکال دیاجائے ؟بالآخر چند دنوں کہ بعد اس امام کو ہی نکال دیاجاتاہے ،کیونکہ مسجد کے ذمہ داروں کے پاس بھی امام سے زیادہ ان مقتدیوں کی اہمیت ہوتی ہے ۔ آپ سے گذارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں اور یہ بھی تحریر فرمائیں کہ ایسے مقتدی وذمہ داران کے متعلق جوسازش کریں کیا وعید ہیں؟

    جواب نمبر: 59587

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 452-452/Sd=8/1436-U شریعت میں امامت کا منصب ایک عظیم منصب ہے، مسلمانوں پر اس منصب پر فائز ہوئے شخص کا احترام کرنا ضروری ہے، ذاتی رنجش اور نفسانی اغراض کی بنا پر بعض مقتدیوں کا امام صاحب کو متہم کرنا، ان پر الزام تراشیاں کرنا لوگوں کے مابین ان کے بارے میں غلط اور من گھڑت باتیں مشہور کرنا سخت ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، شریعت نے امام صاحب کے تعلق سے بعض مقتدیوں کی کی ناراضگی کو اتنی اہمیت نہیں دی ہے کہ جس کی وجہ سے امام صاحب کو منصب امامت سے معزول کردیا جائے، ہاں اکر سارے یا اکثر مقتدی امام صاحب سے کسی شرعی قباحت کی بنا پر ناراض ہوں، تو امام کو اپنی کمی دور کرنا چاہیے، ورنہ ان کی امامت مکروہ ہوگی، عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ثلاثة لا یقبل اللہ منہم صلاة: من تقدم قومًا وہم لہ کارہون (أبو داوٴد، رقم: ۵۹۳) وقد قید ذلک (الکراہة) جماعة من أہل العلم بالکراہة الدینیة بسبب شرعي، فأما الکراہة لغیر الدین، فلا عبرة بہا، وقیدوہ أیضًا بأن یکون الکارہون أکثر المأمومین، ولا اعتبار بکراہة الواحد ولا اثنین والثلاثة إذا کان الموٴتمون جمعًا کثیرًا (بذل المجہود: ۱/۲۹۳) وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ، ومع ہذا یکرہونہ، لا یکرہ لہ اتفاقًا؛ لأن الجاہل والفاسق یکرہ العالم والصالح․ (شامي: ۲/۲۹۷، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند