• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 58410

    عنوان: حرم شریف میں تو امام حنبلی ہوتے ہیں وہاں عصر کی نمازکب پڑھی جائے گی اور وتر کسے پڑھیں؟ وہ تو دو کے بعد سلام پڑھتے ہیں؟

    سوال: حرم شریف میں تو امام حنبلی ہوتے ہیں وہاں عصر کی نمازکب پڑھی جائے گی اور وتر کسے پڑھیں؟ وہ تو دو کے بعد سلام پڑھتے ہیں؟

    جواب نمبر: 58410

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 272-272/Sd=6/1436-U احناف کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ سایہٴ اصلی کے دو مثل ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی جائے؛ لیکن حرم شریف میں سایہٴ اصلی کے ایک مثل ہونے کے بعد ہی عصر کی جماعت ہوجاتی ہے، احناف میں سے صاحبین رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے، جماعت کی اہمیت اور حرم شریف میں اس کی فضیلت کی وجہ سے صاحبین کے مسلک کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہے، یعنی حرم شریف میں عصر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے، اگرچہ جماعت دو مثل سے پہلے ہو اور وتر کے سلسلے میں بھی اگرچہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں؛ لیکن حرم شریف میں دو سلام کے ساتھ بھی وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ عن عبد اللہ بن رافع مولی أم سلمة زوج النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ سُئل أبا ہریرة عن وقت الصلاة، فقال أبو ہریرة: أنا أخبرک، صَلِّ الظہرَ إذا کان ظلک مثلک والعصر إذا کان ظلک مثلیک (موٴطا إمام مالک) قال الحصکفي: ووقت الظہر من زوالہ إلی بلوغ الظل مثلیہ․ قال ابن عابدین: ہذا ظاہر الروایة عن الإمام، وہو الصحیح بدائع، ومحیط -وہو المختار غیاثیة- واختارہ أصحاب المتون (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۱۵، کتاب الصلاة، ط: دار إحیاء التراث العربیي، أحسن الفتاوی: ۲/۱۴۵) قال البنوري: وبالجملة فمذہب الحنفیة أنہ لا وترَ عندہم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیم، نعم لو اقتدی حنفي بشافعي في الوتر ومسلم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ ثم أتمَّ الوتر صَحَّ وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان، (معارف السنن: ۴/۱۷۰، أشرفیہ) ولا عبرة بحال المقتدي وإلیہ ذہب الجصاص وہو الذي اختارہ لتوارث السلف واقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع في الفروع وکان شیخنا شیخ الہند محمود الحسن أیضًا یذہب إلی مذہب الجصاص رحمہ اللہ․ (فیض الباری: ۳/۳۵۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند