• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 21745

    عنوان:

    میں قضائے عمر ی کے بارے میں سوال معلوم کرنا چاہتاہوں۔ برائے کرم وضاحت فرماویں کہ کیا قضائے عمری کا کوئی تصور موجود ہے۔ اگر موجود ہے، تو برائے کرم مجھ کو اس کے بارے میں کچھ صحیح حدیث عنایت فرماویں کیوں کہ اہل حدیث کے مطابق اس کے بارے میں مستند حدیث نہیں ہیں؟ برائے کرم اس سوال کاجواب مستند حدیث کے حوالہ سے دیں (جیسے صحیح مسلم/بخاری وغیرہ)۔

    سوال:

    میں قضائے عمر ی کے بارے میں سوال معلوم کرنا چاہتاہوں۔ برائے کرم وضاحت فرماویں کہ کیا قضائے عمری کا کوئی تصور موجود ہے۔ اگر موجود ہے، تو برائے کرم مجھ کو اس کے بارے میں کچھ صحیح حدیث عنایت فرماویں کیوں کہ اہل حدیث کے مطابق اس کے بارے میں مستند حدیث نہیں ہیں؟ برائے کرم اس سوال کاجواب مستند حدیث کے حوالہ سے دیں (جیسے صحیح مسلم/بخاری وغیرہ)۔

    جواب نمبر: 21745

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 677=677-5/1431

     

    اسلام میں قضائے عمری کا تصور بالکل موجود ہے، اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسی بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ علیہ السلام کا یہ ارشاد مروی ہے: من نسي صلاة فلیصل إذا ذکرہا لا کفارة لہا إلا ذلک (کتاب المواقیت، باب/ ۳۷، رقم الحدیث/ ۵۹۷)․ صحیح مسلم میں آپ علیہ السلام کا اشاد مروی ہے: إذا رقد أحدکم عن الصلاة أو غفل عنہا، فلیصلّہا إذا ذکرہا فإن اللہ عز وجلّ یقول: أقم الصلاة لذکري: (آخر کتاب المساجد رقم الحدیث: ۱۵۶۹) اور سنن نسائی میں ہے: سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرجل یرقد عن الصلاة أو یغفل عنہا، قال کفارتہا أن یصلیہا إذا ذکرہا (۱/۱۷)

    اِن احادیث میں آپ علیہ السلام نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب کبھی انسان کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے تو اس کے ذمے لازم ہے کہ تنبہ ہونے پر اس کی قضاء کرے خواہ یہ نماز بھول سے چھوٹی ہو، سوجانے کی وجہ سے یا غفلت کی وجہ سے۔ صحیح مسلم اور سنن نسائی کی روایتوں میں اس موقع پر آپ علیہ السلام نے آیتِ قرآنی: أقم الصلاة لذکري کا حوالہ دے کر یہ بھی واضح فرمادیا کہ یہ آیتِ قرآنی نماز کی قضاء پڑھنے کے حکم کو بھی شامل ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا یہ فریضہ ادا کرنے پر تنبہ ہو، اُسے نماز ادا کرنی چاہیے۔

    یہ اصول بیان کرتے وقت آپ علیہ السلام نے نمازوں کی تعداد مقرر نہیں فرمائی کہ اتنی تعداد میں نمازوں کی قضا واجب ہے، چناں چہ جب غزوہٴ خندق کے موقع پر آپ علیہ السلام کی کئی نمازیں چھوٹیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی قضاء فرمائی، جس کا واقعہ حدیث کی تمام کتابوں میں تفصیل سے آیا ہے۔ اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر اس سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو اُن کی قضاء واجب نہیں۔ اور یہ ایک مسلم اصول ہے کہ قرآن وسنت کی طرف سے جب کوئی عام حکم آتا ہے تو اس کے ہرہرجز ئیے کے لیے الگ حکم نہ دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا قضائے عمری یعنی زیادہ نمازوں کی قضاء کے لیے الگ دلیل کی ضرورت نہیں اورالگ دلیل کا مطالبہ، غلط جاہلانہ اور اِس مذکورہ مسلّم اصول کے خلاف مطالبہ ہوگا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی کسی عام حکم سے استثناء کا دعویٰ کرے تو دلیل اس کے ذمّے ہے کہ قرآن وسنت کی کسی دلیل سے مستثنیٰ ہونا ثابت کرے ورنہ جب تک قرآن وسنت میں کوئی استثنا مذکور نہ ہو عام حکم اپنی جگہ قائم رہے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند