• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 57399

    عنوان: مام صاحب نے ظہر کی نماز پڑھائی اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا

    سوال: کیا فرماتے ھیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک امام صاحب نے ظہر کی نماز پڑھائی اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا نماز سے فارغ ہونے ہونے پر کسی نے بتایا کہ قعدہ اولیٰ نہیں کیا امام صاحب نے نماز دوبارہ شروع کرادی اب جو مسبوقین ہیں وہ اپنی نماز کو پورا کریں یا نماز توڑ کر امام صاحب کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جائیں اور اگر مسبوقین نے اپنی نماز پوری کرلی اور سجدہ سہو کرلیا تو کیا انکی نماز ہو گئی اور اگر کوئی نیا آدمی اس جماعت میں شامل ہو جاے تو کیا اسکی نماز ہوگئیی یا دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔بیٹھ کر نماز پڑھنے میں رکوع میں کتنا جھکنا چاہئے سرین اٹھا کر رکوع کریں یا نہیں مفصل جواب مرحمت فرمائیں

    جواب نمبر: 57399

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 276-42/D=3/1436-U (الف) جب امام صاحب نے قعدہٴ اولی ترک کردیا اور سجدہٴ سہو بھی نہ کیا تو ان کی نماز کی فرضیت تو ساقط ہوگئی لیکن جبر نقصان کی وجہ سے واجب الاعادہ ہے۔ ”ففي المراقي: ووجب علیہ إعادة الصلاة لجبر نقصہا فیکون مکملة وسقط الفرض بالأولی“ (۴۶۲) اب جب امام صاحب نے دوبارہ نماز شروع کرادی تو مسبوقین کو اختیارہے اگر چاہیں تو اپنی نماز بلاسجدہٴ سہو کے پوری کرلیں پھر امام کی اقتداء کریں ” ففي الہدایة: فإن لم یسجد الإمام لم یسجد الموٴتم (ہدایہ: ۱/۱۵۸ ط: یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند) اوراگر چاہیں تو اپنی نماز توڑدیں اورعلیحدہ نماز پڑھیں اگر نماز توڑکر امام کے ساتھ شرکت کرلی تو نماز صحیح نہ ہوگی ان کو نماز لوٹانا چاہیے کیوں کہ امام کے ذمہ سے فرض پہلی نماز کی وجہ سے ساقط ہوگیا اوراعادہ جبر نقصان کی وجہ سے واجب ہے، لہٰذا نئے شخص کو اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ ”ففي الدر: والمختار أنہ جابر للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر“ (شامي: ۲/ ۱۴۸،ط: زکریا) اسی طرح اگر مسبوقین نے اپنی نماز سجدہٴ سہو کرکے پوری کرلی تو بھی ان کی نماز واجب الاعادہ ہے خواہ امام کے ساتھ شریک ہوکر پڑھیں یا علیحدہ۔ حدیث میں ہے: ”الإمام ضامن“ (مشکاة: ۶۵) قال الشامي: إذ لیس المراد بہ الکفالةبل التضمّن بمعنی أن صلاة الإمام متضمنة لصلاة المقتدي (۲/۳۴۰) اور امام کی نماز بوجہ ترک قعدہٴ اولیٰ وعدم سجدہٴ سہو واجب الاعادہ ہے، لہٰذا مسبوقین کی نماز بھی واجب الاعادہ ہے۔ (ب) صلاة معادہ میں نئے وارد کی شرکت کے بارے میں اکابر علماء کے اختلاف ہے حضرت تھانوی رحمہ اللہ اور کچھ دیگر ارباب افتاء کے نزدیک نماز صحیح ہوجائے گی جب کہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ، فقہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے ارباب افتاء کے نزدیک دوسری نماز نفل ہے اس لیے نووارد کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں امداد الفتاوی اور اس کا حاشیہ ۱/۵۴۶ ط: زکریا، فتاوی دارالعلوم ۳/ ۲۴۶، فتاوی محمودیہ ۶/ ۴۴۴ ط: اشرفی وغیرہ۔ (ج) بیٹھ کر نماز پڑھنے کی حالت میں رکوع کا کمال یہ ہے کہ سر کو اتنا جھکائے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل ہوجائے لیکن اگر تھوڑا سا بھی سر کو جھکادے گا کمر کے انحناء کے ساتھ تویہ بھی درست ہے۔ وفي حاشیة الفتّال عن البرجندی: ولو کان یصلّي قاعدًا ینبغي أن یحاذي جبہتہ، قدّام رکبتیہ لیحصل الرکوع اہ قلت: ولعلہ محمول علی تمام الرکوع وإلاّ فقد علمت حصولہ بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظہر (شامي: ۲/۱۳۴،ط: زکریا) ========================== جواب درست ہے البتہ ”ب“ جواب میں مزید اتنی بات ہونی چاہیے کہ ”چونکہ اختلاف نماز کے ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں ہے؛ اس لیے نووارد کو چاہیے کہ شریک ہونے سے گریز کرے اور اپنی نماز تنہا ہی پڑھے تاکہ نماز کے ہونے کے تعلق سے کوئی شبہ باقی نہ رہے“۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند