• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 152548

    عنوان: تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنے کے سلسلے میں تساہل برتنا ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام ، حضرات صحابہ، کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس بارے میں کہ آج کل خواص میں بھی یعنی وہ حضرات جو علماء اور بزرگوں سے متعلق ہیں یہ بات دیکہنے میں بکثرت آرہی ہے کہ وہ اگر تراویح پڑہتے بھی ہیں تو ختم قرآن کا اہتمام ایک دفعہ بھی نماز تراویح میں نہیں کرتے بلکہ بڑے تساہل کا مظاہرہ دیکہنے میں آتا ہے گویا ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں مثلاً ایک دن افطار میں چلے گئے اور تراویح کہیں اور ادا کرلی یا ایک دن ایک قاری کے پیچھے شوق میں چلے گئے ، اگلے دن کسی اور مسجد میں اور اس کا بالکل اہتمام نہیں کہ قرآن شریف جو مختلف جگہوں پر پڑہا جا رہا ہے وہ ایک ساتھ نہیں چل رہا ہوتا جس کی وجہ سے ان کا ختم مکمل نہیں ہوپاتا جبکہ بہشتی گوہر کی عبارت میں صاف اور واضح الفاظ موجود ہیں کہ ایک دفعہ ترتیب وار قرآن شریف کا ختم نماز تراویح میں سنت موکدہ ہے اور اس کو کاہلی یا سستی سے نہیں چہوڑنا چاہئے ۔حضرات علماء سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس بارے میں عوام و خواص کو صحیح حکم سے مطلع فرمادیں کہ کہیں یہ بات بڑھ کر ہمارے پاکستان میں بھی بعض دوسرے ممالک کی طرح نہ ہوجائے کہ رمضان شریف بھی گزر جائے اور تراویح میں مسلمان ایک ختم قرآن سے بھی محروم رہیں اور خدانخواستہ اس کا اہتمام بالکل ختم ہی نہ ہوجائے ۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء۔

    جواب نمبر: 152548

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 954-801/D=11/1438

    تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنے کے سلسلے میں تساہل برتنا اور اس کا کوئی اہتمام نہ کرنا برا ہے، تاہم اس کے سنتِ موٴکدہ ہونے نہ ہونے میں فقہاء اور اکابرین کے درمیان اختلاف رہا ہے؛ لہٰذا اگر کوئی اس کا اہتمام نہ کرسکے تو اسے لعن و طعن نہیں کیا جائے گا۔

    حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی میں تحریر فرمایا ہے کہ ”یہ علمائے احناف میں مختلف فیہ (مسئلہ) ہے۔ (امداد الفتاوی: ۱/۵۰۰)

     


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند