• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 174737

    عنوان: فرض نماز کی رکعتوں میں زیادتی ہوجائے تو كیا كرنا چاہیے؟

    سوال: براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کی رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی۔ ۱- عصر کی نماز میں امام صاحب نے دوسری رکعت میں قاعدہ کیا اور پھر تیسری رکعت میں بھی قاعدہ کیا چوتھی رکعت کے سجود کے بعد پانچویں رکعت کیلئے کھڑے ہوگئے مقتدیو نے لقمہ بھی دیا پر وہ لوٹے نہیں پانچویں رکعت مکمل کرکے سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کی۔ کیا نماز ہوگئی یا لوٹانا ہوگا؟ ۲- امام صاحب کا کہنا ہے کہ مسلم شریف جلد نمبر۱ صفحہ نمبر ۲۱۳ اور ۲۱۲ میں ہیکہ اگر غلطی سے ۳ یا ۵ رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کرلیں تو نماز ہو جاتی ہے کیونکہ ۳ رکعت کے بعد سجدہ سہو کرنے سے وہ چوتھی کے قائم مقام ہوگی اور اگر پانچ رکعت پڑھ کر سجدہ سھو کرلیں تو یہ چھٹی رکعت کے قائمقام ہوگی جس سے نماز ہوجائیگی، کیا یہ صحیح ہے؟ -۳ اگر امام پانچ رکعت پڑھا کر سجدہ سہو کیا ہے اور جو مسبوق ایک رکعت تاخیر سے آیا ہے اسے چار رکعت ملیں ہیں اب وہ کیا کرے کیا امام کے ساتھ سلام پھیر دے یا ایک رکعت اور پڑھے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 174737

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:316-59T/L=4/1441

     صورتِ مسئولہ میں اگر امام نے چوتھی رکعت پر قعدہ نہیں کیا تھا تو جیسے ہی انھوں نے پانچویں رکعت کا سجدہ کیا سب کی نمازفاسد ہوگئی،مسبوقین کی نماز بھی فاسد ہوگئی ،اور اس نماز کا اعادہ ضروری ہے ،جہاں تک سوال میں مذکور حدیث کا تعلق ہے تو اس میں اس کی صراحت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے قعدہ اخیرہ کیا تھا یا نہیں؟ حدیث اس سے ساکت ہے اور ظاہر یہی ہے کہ آپ علیہ السلام نے چار رکعت کے بعد قعدہ کیا تھا جیسا کہ راوی کے الفاظ صلی الظہر خمسا اس بات پر دلالت کررہے ہیں؛کیونکہ ظہر کی نماز کا مطلب یہ ہے کہ تمام ارکان کی ادائیگی کے ساتھ پانچ رکعت پڑھیں اور ان ارکان میں ایک رکن قعدہ اخیرہ بھی ہے؛ البتہ آپ کو چار رکعت کے قعدہ پر سہو ہوا اور آپ نے یہ سمجھا کہ یہ دوسری رکعت کا قعدہ ہے؛ اس لیے آپ اپنے خیال کے مطابق مابقیہ رکعتوں کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔

    وتأویل الحدیث أنہ - علیہ الصلاة والسلام - کان قعد قدر التشہد فی الرابعة بدلیل قول الراوی صلی الظہر خمسا والظہر اسم لجمیع أرکان الصلاة ومنہا القعدة، وإنما قام إلی الخامسة علی ظن أنہا الثالثة حملا لفعلہ - علیہ الصلاة والسلام - علی ما ہو أقرب إلی الصواب․ (العنایة: ۱/ ۵۱۰) وقال العینی والظاہر من حال النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- أنہ قعد علی الرابعة؛ لأن حمل فعلہ علی الصواب أحسن من حملہ علی غیرہ وہو اللائق بحالہ علی أن المذکور فیہ صلی الظہر خمسًا والظہر اسم للصلاة المعہودة فی وقتہا بجمیع أرکانہا․ (فتح الملہم:4/136)وفی البدائع: وأما الحدیث فتأویلہ أنہ کان قعد فی الرابعة، ألا تری أن الراوی قال: صلی الظہر والظہر اسم لجمیع أرکانہا، ومنہا القعدة وہذا ہو الظاہر أنہ قام إلی الخامسة علی تقدیر أن ہذہ القعدة الأولی؛ لأن ہذا أقرب إلی الصواب فیحمل فعلہ علیہ. واللہ أعلم(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 1/ 179، الناشر: دار الکتب العلمیة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند