• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 149332

    عنوان: وتر کی کتنی رکعتیں ہیں،اہل حدیث ایک رکعت پڑھتے ہیں اور حنفی تین،دونوں کے دلائل کیا ہیں؟

    سوال: وتر کی کتنی رکعتیں ہیں،اہل حدیث ایک رکعت پڑھتے ہیں اور حنفی تین،دونوں کے دلائل کیا ہیں؟

    جواب نمبر: 149332

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 533-435/D=7/1438

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور متعدد صحابہٴ کرام سے وتر کا تین رکعت ہونا ثابت ہے جس میں یہ صراحت بھی ہے کہ دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے یہی احناف کا مسلک ہے تفصیل کے لیے اعلاء السنن ج۶ص۱تا ۷۰کا مطالعہ فرمائیں۔

    چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:

    (۱) عن عائشة رضي اللہ تعالی عنہا أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر (رواہ النسائي: ۱/۲۴۸) وسکت عنہ وفي آثار السنن إسنادہ صحیح أخرجہ الحاکم في المستدرک: ۱/۲۰۴بلفظہ۔

    (۲) قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم في الرکعتین الأولین من الوتر وقال ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین وأقرہ علیہ الذہبي فی تلخیصہ․ وقال علی شرطہما․

    (۳) وعنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن أخرجہ الحاکم ․

    (۴) وعن ابن عباس في الحدیث رواہ مسلم بطریق علي بن عبد اللہ ابن عباس في آخرہ ”ثم أوتر بثلاث“ ج۱ص۲۶۱․

    (۵) وعن المسور بن مخزمة قال دفنا أبا بکر لیلا فقال عمر: إنی لم أوتر فقام فصففنا ورائہ فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرہن․ أخرجہ الطحاوي ج۱ص۱۷۳وفي آثار السنن إسنادہ صحیح ج۲ص۱۲)

    قال المحقق ظفر أحمد العثماني في إعلاء السنن: قلت فیہ أن الوتر ثلاث لا یسلم إلا في آخرہن․ وقد فعل ذلک عمر بن الخطاب في محضر عظیم من الصحابة لم یغب عنہ إلا القلیل فکان کالإجماع منہم علی ذلک فکیف یقول قائل: أن الوتر بثلاث موصولة لم یثبت عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم؟ فہل تری الصحابة یجتمعون علی أمر لم یعرفوہ منہ؟ کلا! لا یمکن مثلہ أبدًا․ والتفصیل في ہذا المبحث في إعلاء السنن․

    اہل حدیث کے دلائل خود ان سے معلوم کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند