عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 174099
جواب نمبر: 174099
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:168-T/SN=3/1441
(الف)اگر سفر کے پیش نظر آپ کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا مشکل ہوتا ہو توصورت مسئولہ میں آپ کا طرز عمل (یعنی فجر کا وقت داخل ہونے پر خود ہی اذان کہنا پھر سنتیں پڑھ کر اقامت کے ساتھ اکیلا نماز پڑھ لینا) درست ہے؛ البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر کے کسی فرد کے ساتھ مل کرجماعت کرلیا کریں ، اس سے جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی، حدیث میں تنہا نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت با جماعت نماز ادا کرنے پر ستائیس گنا زیادہ فضیلت کی بات آئی ہے۔(ب) اگر بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھ لیں گے تب بھی نماز ہوجائے گی؛ لیکن اذان واقامت کے ساتھ پڑھنا زیادہ اچھا ہے۔
(ج) اللہ تعالی آپ کے والدین اور وفات پانے والے جملہ اقارب واعزہ کی مغفرت فرمائے نیز آپ کے باحیات متعلقین کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی زندگی دے نیز انھیں اور ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے۔ (آمین)
(...وہو سنة) للرجال فی مکان عال (مؤکدة) ہی کالواجب فی لحوق الإثم (للفرائض) الخمس (فی وقتہا ولو قضاء) لأنہ سنة للصلاة..... (قولہ: للفرائض الخمس إلخ) دخلت الجمعة بحر، وشمل حالة السفر والحضر والانفراد والجماعة. قال فی مواہب الرحمن ونور الإیضاح ولو منفردا أداء أو قضاء سفرا أو حضرا. اہ. لکن لا یکرہ ترکہ لمصل فی بیتہ فی المصر؛ لأن أذان الحی یکفیہ کما سیأتی. وفی الإمداد أنہ یأتی بہ ندبا وسیأتی تمامہ فافہم، ویستثنی ظہر یوم الجمعة فی المصر لمعذور وما یقضی من الفوائت فی مسجد کما سیذکرہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 48،ط: زکریا)
عن عبد اللہ بن عمر: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرین درجة.(صحیح البخاری ،رقم : 645،باب فضل صلاة الجماعة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند