• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 174099

    عنوان: منفرد کے لیے اذان واقامت، سفر کے پیش نظر گھر میں نماز

    سوال: مولانا مفتیان کرام امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ (الف) مولانا مجھے علی الصبح کام کیلئے طویل سفر پر جانا پڑتا ہے اس کے لئے میں صبح جیسے ہی فجر کا وقت ہوتا ہے ہمارے یہاں پر فجر کا وقتصبح ۵.۱۷ منٹ پر شروع ہوتا ہے اسی وقت میں اذان دیتا ہوں دو رکعت سنت ادا کرتا ہوں اور اقامت دے کر نماز پڑھتا ہوں جب کہ ہمارے وقت محلے کی مسجدوں میں پانچ بج کر تیس منٹ پر اذانیں ہوتی ہی، تو کیا ایسا کرنا میرا صحیح ہے؟ (ب) اور ساتھ ہی میں یہ بھی جاننا چاہ رہا ہوں کہ کیا میں بغیر اذان دیئے یا بغیر اقامت کے نمازیں پڑھ سکتا ہوں برائے مہربانی جلد میری اصلاح فرمائیں نوازش ہوگی۔ (ج) مولانااپنی والدہ مرحومہ کی مغفرت کے لئے خصوصی دعا کی بھی درخواست ہے۔ ساتھ ہی دادا دادی نانا نانی و سبھی مرحومین کی مغفرت کی دعا کی بھی درخواست ہے نیز میرے اور میرے خاندان بھائی بہنوں وسبھی جملہ رشتہ داروں ساتھ ہی دوست و احباب کی صحت وعافیت نیز پریشانیوں سے بچنے کے لئے اور سبھی کے ایمان کی سلامتی کے لئے دنیا و آخرت میں بھلائی کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔

    جواب نمبر: 174099

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:168-T/SN=3/1441

    (الف)اگر سفر کے پیش نظر آپ کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا مشکل ہوتا ہو توصورت مسئولہ میں آپ کا طرز عمل (یعنی فجر کا وقت داخل ہونے پر خود ہی اذان کہنا پھر سنتیں پڑھ کر اقامت کے ساتھ اکیلا نماز پڑھ لینا) درست ہے؛ البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر کے کسی فرد کے ساتھ مل کرجماعت کرلیا کریں ، اس سے جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی، حدیث میں تنہا نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت با جماعت نماز ادا کرنے پر ستائیس گنا زیادہ فضیلت کی بات آئی ہے۔(ب) اگر بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھ لیں گے تب بھی نماز ہوجائے گی؛ لیکن اذان واقامت کے ساتھ پڑھنا زیادہ اچھا ہے۔

    (ج) اللہ تعالی آپ کے والدین اور وفات پانے والے جملہ اقارب واعزہ کی مغفرت فرمائے نیز آپ کے باحیات متعلقین کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی زندگی دے نیز انھیں اور ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے۔ (آمین)

    (...وہو سنة) للرجال فی مکان عال (مؤکدة) ہی کالواجب فی لحوق الإثم (للفرائض) الخمس (فی وقتہا ولو قضاء) لأنہ سنة للصلاة..... (قولہ: للفرائض الخمس إلخ) دخلت الجمعة بحر، وشمل حالة السفر والحضر والانفراد والجماعة. قال فی مواہب الرحمن ونور الإیضاح ولو منفردا أداء أو قضاء سفرا أو حضرا. اہ. لکن لا یکرہ ترکہ لمصل فی بیتہ فی المصر؛ لأن أذان الحی یکفیہ کما سیأتی. وفی الإمداد أنہ یأتی بہ ندبا وسیأتی تمامہ فافہم، ویستثنی ظہر یوم الجمعة فی المصر لمعذور وما یقضی من الفوائت فی مسجد کما سیذکرہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 48،ط: زکریا)

     عن عبد اللہ بن عمر: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرین درجة.(صحیح البخاری ،رقم : 645،باب فضل صلاة الجماعة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند