• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 609078

    عنوان:

    غیر حاضری یا دیر حاضری کی تنخواہ اور اس کی تلافی وغیرہ سے متعلق چند سوالات

    سوال:

    ہم گورنمنٹ سے منسلک کسی منصوبے پر کام کرتے ہیں۔ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ملازمین کے ایک نگران مقرر ہوتا ہے جو ملازمین کی کام اور اوقات کی (نگرانی، زمدار ہوتا ہے) اور ماہ کے آخر میں تنخواہیں شعبہ آمدن (فائنانس ڈیپارٹمنٹ) کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور اس نگران کے اوپر اس کا کوئی نگران بھی مقرر ہوتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ اعلیٰ نگران تک ہوتا ہے۔ ملازمین کا دفتر دیر سے آنے اور مقررہ وقت سے پہلے جانے اور دفتر اوقات میں اپنے ذاتی کام وغیر کرنا یا بغیر اجازت کے غیر حاضر رہنا اسلامی نکتہ نظر سے ناجائز ہے۔۔ اب سوال یہ ہے ماضی میں اوپر مذکور اوقات کی جو تنخواہ لیا ہے۔ اس کا ازالہ کس صورت میں ہوسکتا ہے۔ (( 1 )) اگر ہم ان مذکورہ ماضی کے اوقات کی نشاندھی کرکے اپنے نگران کو زبانی یا کاغذی طور پر پیش کریں کہ اتنے اوقات پچھلے مہینوں کی غیر حاضر اور ذاتی کام میں خرچ ہوئے ہیں جس کی ہم تنخواہ لیے چکے ہیں اس لیے ہماری آئندہ ماہ کی تنخواہ سے ماضی کے اوپر ذکر کردہ اوقات کی وجہ سے کاٹواناچاھتے ۔ ان اوقات میں سے چند اوقات ماضی میں ہی نگران کی علم میں اچکے تھے اور کچھ ہماری طرف سے نشاندھی کرائی گئی۔ پھر بھی آگر نگران بغیر کسی لالچ وغیرہ کے آئندہ تنخواہ سے کٹوتی نہ کروائیں بلکہ تنخواہ پوری ادا کروئے اور ادارے کی اور نگران کی طرف سے جو منصوبے کا کام ہمارے ذمے تھے وہ بھی نقصان کئی بغیر پورا کیا ہو۔ اور کبھی کبھی نگران کے کہنے پر بغیر کسی معاوضے کے ضرورت کے وقت کچھ زیادہ وقت دے کر کام مکمل کیے ہوں۔ کیا اس طرح ہماری ماضی کے اوپر ذکر کردہ اوقات کی تنخواہ جائز اور حلال ہوگی ؟۔

    (2۔)کن صورتوں میں پیسے نگران کے حوالہ کرسکتے ہیں تاکہ وہ آفس کے لیے کوئی مجموعی چیز خریدے یا کہے کہ میں محکمہ تک پہنچا دونگا۔اس طرح کیا ہماری ماضی کی بقایہ تنخواہ جائز و حلال ہوگی؟

    ( 3 ) کسی غریب کو یا عوامی کام میں بغیر کسی اجر کے دے سکتے ہیں؟

    4۔ یا دفتر کے لیے کوئی مجموعی کام کی چیز ( بجلی/گیس کا بل, کاغذ یا کچھ اور ، خرید کر دیے سکتے ہیں) چونکہ منصوبے کے پیسوں سے ہی یہ چیزیں خریدتے ہیں اگر ہم خرید کر دیں گے تو ان چیزوں کے لیے منصوبے کے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس طرح ہماری ماضی کی تنخواہ جائز اور حلال ہوگی؟ برائے مہربانی اشکالات کا جواب الگ الگ عنایت فرمائیں۔ جزاک اللّہ

    جواب نمبر: 609078

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:384-72/TH-Mulhaqa=6/1443

     (۱- ۴): صورت مسئولہ میں ضابطہ کی بات تو یہ ہے کہ آپ نے دوران ملازمت، ڈیوٹی کے اوقات میں عرفاً ناقابل انگیز جتنی دیر حاضری یا غیر حاضری کی ہے، اس کے بہ قدر اپنی تنخواہ کا حصہ اصل ذمے دار (مالک) کو واپس کریں اور آپ نے نگراں کے کہنے پر خارج اوقات میں جو مزید کام کام کیا ہے، اس کا معاوضہ وصول کریں، اور اگر آپ نگراں کی اجازت سے مقاصہ (ادلا بدلی)کرلیں تو دیانتاً اس کی بھی گنجائش ہوگی، یعنی: اگر آپ نے نگراں کے کہنے پر دیر حاضری اور غیر حاضری کی مجموعی مقدار کے بہ قدر اپنا ذاتی وقت صرف کرکے خارج میں کام کردیا ہے اور منصوبے کا جو کام آپ کے ذمے تھا، وہ بغیر کسی نقص وکمی کے مکمل ہوگیا ہے تو اس صورت میں آپ کی پوری تنخواہ جائز ہوجائے گی، اور اگر آپ نے خارج اوقات میں کم وقت صرف کیا ہے تو آپ اپنی مابقیہ دیر حاضری وغیر حاضری کی مقدار کے بہ قدر تنخواہ کا حصہنگراں کو اس طور پر واپس کردیں کہ وہ آفس کے لیے کوئی ضرورت کا سامان خریدے یا آفس کی ضروریات میں صرف کردے یا اصل ذمے دار کو پہنچادے، اور اگر نگراں واپس لینے کے لیے تیار نہ ہو اور اصل مالک تک پیسہ پہنچانے کی بھی کوئی صورت نہ ہو تو آپ وہ پیسہ بلا نیت ثواب (بلا عوض) غریبوں کو دیدیں ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند