• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 130950

    عنوان: میرے کھیت کی گھاس کاٹو، آدھی میری آدھی تیری؟

    سوال: میرے کھیت میں گھاس ہیں ایک آدمی کو میں نے کہا کہ گھاس کاٹ کر سنبھال کر و، آ دھاگھاس میرا اور آدھا تیرا، اس پر وہ راضی ہے یعنی آدھا گھاس اس کا میرے طرف سے مزدور ی ہوگا، کیا یہ معاملہ ٹھیک ہے ؟ کیا میری آدھی گھاس مجھ پر حلال ہے ؟ اور اس پر اسکا حلال ہے؟

    جواب نمبر: 130950

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1202-1228/SN37=2/1438
    مذکور فی السوال میں معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ خود رو گھاس کا مالکِ زمین بھی شرعاً مالک نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ مباح الاصل ہوتی ہے، جو اس کو کاٹے گا وہی اس کا مالک ہوگا، مالکِ زمین کا اس سے آدھی گھاس لینا شرعاً جائز نہیں ہے، نیز اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ”مزدوری“ ایسی چیز متعین کی جا رہی ہے جو مزدور کے عمل کے نتیجے میں حاصل ہورہی ہے جب کہ حدیث میں اس سے ممانعت آئی ہے، عدمِ جواز کی یہ وجہ عام ہے خواہ گھاس خود رو ہو یا آپ نے بیج ڈال کر اگائی ہو، بہرحال یہ معاملہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لاتصحّ شرکة في احتطاب واحتشاس ․․․․․ وماحصلہ احدہما فلہ الخ (درمختار مع الشامی: ۶/۵۰۳، ط: زکریا) وفیہ (۱۰/ ۱۵، إحیاء الموات) ثم الکلام في الکلأ علی أوجہٍ أعمّہا مانبت في موضعٍ غیر مملوکہ لأحد فالناس شرکاء في الرعي والاحتشاس منہ ․․․․․․ وأخصّ منہ وہو مانبت فی أرضٍ مملوکة بلا إنبات صاحبہا وہو کذلک ․․․․․ وأخصّ من ذلک کلہ وہو أن یحتش الکلأ أو أنبتہ في أرضہ فہو ملک لہ الخ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند