عنوان: دیگر معاملات
سوال: ۱.) میرے شوہر نے ۱ یک گھر خریدا جو میرے شوہر کے نام ہے گھر خریدتے وقت میں نے اپنے ۱ یک غیر شادی شدہ بیٹے سے ایک لاکھ روپیہ لیا (اب وہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے میں اپنے ۲ بیٹوں کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر میں رہتی ہوں ) کچھ عرصے بعد اس کی شادی کی جب اس ک ۳ بچے ہوئے جن میں ۲ بیٹیاں تھیں جب میں نے اپنے شوہر سے پوچھے بغیر بیٹے کو کہہ دیا کہ جب گھر فروخت ہو گا ، تم کو اسی حساب سے پیسے بڑھا کے واپس ملے گے کیونکہ تمہارا بچیوں کا ساتھ ہے۔ اب میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس بیٹے کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہے اب گھر فروخت کر رہی ہوں اب پوچھنا یہ ہے کہ میری پیسے بڑھا کے دینے والی بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۲.) اس گھر میں رہائش کے کافی عرصے بعد میں نے اپنے دوسرے بیٹے سے ۲۵ ہزار روپے لے کر ۱ کمرہ بنوایا میں نے اس کو نہیں کہا کہ تمہیں یہ واپس ملے گے مگر وہ کہتا ہے کہ میں بھی اسی حساب سے پیسے بڑھا کے واپس لوں گا ۔
۳.) میرے ۸ بچے ہیں جن میں ۴ بیٹے اور ۴ بیٹیاں ہیں ان میں سے ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے (اس ایک ایک بیٹااور ۲ بیٹیاں ہیں اور شوہر بھی ) اب یہ بتا دیں کہ مجھ سمیت کتنے وارث ہیں اور کیسے تقسیم ہو گی؟
جواب نمبر: 4345731-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 298-117/L=3/1434
(۱) مذکورہ بالا صورت میں والد کو رقم دینے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں: (۱) بطور امداد وتعاون (۲) بطور قرض (۳) بطور شرکت۔ اگر لڑکے نے بطور امداد رقم دی ہو تو اب وہ گھر فروخت ہونے کے بعد کچھ بھی رقم کا مستحق نہ ہوگا۔ اگر بطور قرض دی ہو تو صرف دی ہوئی رقم کے بقدر لینے کا مستحق ہوگا، زاید کا مستحق نہ ہوگا اور نہ ہی اس کو زاید رقم دینا جائز ہوگا اور اگر بطور شرکت دی ہو تواب اپنی رقم کے بقدر نفع کا بھی مستحق ہوگا۔ واضح رہے کہ قرض یا شرکت کے طور پر رقم دینے کی صورت میں اس کی صراحت زبان سے ضروری ہوگی ورنہ امداد وتعاون شمار ہوگا۔
(۲) اس صورت میں اگر لڑکے نے کوئی صراحت نہ کی ہو تو امداد شمار ہوگا اور اس کو کچھ بھی رقم لینے کا اختیار نہ ہوگا۔
(۳) بچی کی وفات اپنے والد کی زندگی میں ہوئی تھی یا بعد میں؟ اس کی صراحت کرکے دوبارہ استفتاء ارسال کریں، پھر ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند