• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 3767

    عنوان:

    میں ایک رفاہی ادارے میں ملازمت کرتاہوں، حکومت کی طرف سے اس دارے کو ۴۰/ لاکھے روپئے ملے جو بینک میں فکس کر دئیے گئے،یہ ادارہ اس سے ملنے والے منافع کواپنے معاملات میں استعمال کررہا ہے۔ کبھی حکومت کی طرف سے کروڑوں میں گرانٹ (مالی فنڈ) ملتی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس ادارہ میں ملازمت کرنا جائز ہے؟

    سوال:

    میں ایک رفاہی ادارے میں ملازمت کرتاہوں، حکومت کی طرف سے اس دارے کو ۴۰/ لاکھے روپئے ملے جو بینک میں فکس کر دئیے گئے،یہ ادارہ اس سے ملنے والے منافع کواپنے معاملات میں استعمال کررہا ہے۔ کبھی حکومت کی طرف سے کروڑوں میں گرانٹ (مالی فنڈ) ملتی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس ادارہ میں ملازمت کرنا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 3767

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 364/ ل= 342/ ل

     

    آپ کے سوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس ادارہ کے پاس جو رقم ہے وہ دو طرح کی ہے، ایک عطیہ کی رقم دوسرے اس سے حاصل سود کی رقم، عطیہ کی رقم جائز و حلال ہے اور اس سے ملنے والی تنخواہ بھی جائز و حلال ہے، البتہ وہ رقم جو ادارے کو فکس کے نتیجے میں بینک سے اصل رقم سے زائد ملتی ہے وہ سود ہے، اگر یقین سے معلوم ہو کہ مجھے یہ تنخواہ اسی سود سے مل رہی ہے تو اس کا لینا ناجائز ہوگا، ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ اس ملازمت کو ترک کرنے کی فکر کریں اوردوسری ملازمت کی تلاش میں سعی بلیغ سے کام لین، لیکن جب تک دوسری ملازمت نہ مل جائے اس کو ترک نہ کریں، دوسری ملازمت مل جانے پر اس کو چھوڑدیں اور اللہ سے توبہ واستغفار کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند