• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 41087

    عنوان: علم غیب كے سلسلے میں حضرت تھانوی كی طرف منسوب ایك عبارت كی حقیقت

    سوال: میں نے بریلوی علما سے سنا ہے کے مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی مایہ ناز کتاب حفظُول امان نامی کتاب می حضر پاک کی گستاخی کی ہے ,مولانا اشرف علی تھانوی نے حضر کے علم غیب کو جانورو کے علم گیب سے تشبیہ دی ہیں میں نے خود یہ کتاب کا مطالہ کیا ہے ,یہ کہا تک سہی ہے مجھے اسکے بارے می تفسیر سے بولے ، کیونکہ جب بھی میں کسی سننی لڑکے کو جماعت میں چلنے کو کہتا ہوں تو وو کہتا ہے کی پہلے اپنا عقیدہ صحیح کرو پھر چلتے ہیں ۔

    جواب نمبر: 41087

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1383-510/L=10/1433 آپ نے حفظ الایمان کے مطالعہ کے بعد سمجھ لیا ہوگا کہ جن جن لفظوں کے ساتھ بریلوی حضرات نے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی جانب الزام عائد کیا ہے، وہ بالکل من گھڑت اور جھوٹ ہے، مکتب رضاخانی کا کوئی فرد بالکل ان ہی لفظوں کے ساتھ ”حفظ الایمان“ کے کسی اصل نسخہ میں نہیں دکھاسکتا، اس الزام کے متعلق خود حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے استفتاء کیا گیا تو حضرت نے جو جواب دیا وہ ”بسط البنان“ اور ”السحاب المدرار“ میں طبع ہوچکا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوال وجواب کو نقل کردیا جائے۔ السوال: بخدمت اقدس حضرت مولانا المولوی الحافظ الحاج الشاہ اشرف علی صاحب مدت فیوضکم العالیہ، بعد سلام مسنون عرض ہے کہ مولوی احمد رضاخاں صاحب بریلوی یہ بیان کرتے ہیں اور حسام الحرمین میں آپ کی نسبت یہ لکھتے ہیں کہ آپ نے ”حفظ الایمان“ میں اس کی تصریح کی ہے کہ غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، ایسا ہربچے اور ہرپاگل، بلکہ ہر جانور اور ہرچارپائے کو حاصل ہے، اس لیے امور ذیل دریافت طلب ہیں: (۱) آیا آپ نے حفظ الایمان میں یا کسی کتاب میں ایسی تصریح کی ہے۔ (۲) اگر تصریح نہیں کی تو بطریق لزوم بھی یہ مضمون آپ کی کسی عبارت سے نکل سکتا ہے۔ (۳) آیا ایسا مضمون آپ کی مراد ہے۔ (۴) اگر آپ نے نہ ایسے مضمون کی تصریح فرمائی نہ اشارہ یہ مفاد عبارت ہے، نہ آپ کی مراد ہے تو ایسے شخص کو جو یہ اعتقاد رکھے یا صراحتاً یا اشارة کہے اسے آپ مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر۔ بینوا توجروا بندہ مرتضی حسن الجواب: مشفق مکرم سلمہم اللہ تعالی․․ ․ السلام علیکم، آپ کے خط کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے یہ خبیث مضمون ”غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ایسا ہربچے کو اور ہرپاگل بلکہ ہرجانور اور ہرچارپائے کو حاصل ہے“ کسی کتاب میں نہیں لکھا، اور لکھنا تو درکنار میرے قلب میں بھی اس مضمون کا کبھی خطرہ نہیں گذرا۔ (۲) میری کسی عبارت سے یہ مضمون لازم نہیں آتا چنانچہ اخیر میں عرض کروں گا۔ (۳) جب میں اس مضمون کو خبیث سمجھتا ہوں اور میرے دل میں بھی کبھی اس کا خطرہ نہیں گذرا جیسا کہ اوپر معروض ہوا تو میری مراد کیسے ہوسکتا ہے؟ (۴) جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا عتقاد صراحةً یا اشارةً یہ بات کہے میں اس شخص کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں کہ وہ تکذیب کرتا ہے، نصوص قطعیہ کی اور تنقیص کرتا ہے، حضور سرور عالم فخر نبی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی، یہ تو جواب ہوا آپ کے سوالات کا (الی قولہ) میرا میرے سب بزرگوں کا عقیدہ اور قول ہمیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل المخلوقات في جمیع الکمالات العلمیہ والعملیہ ہونے کے باب میں یہ ہے: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر (بسط البنان: ۹/۱۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند