• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 603356

    عنوان: جب اللہ نے دنیا اور کائنات بنائی تو اللہ اس وقت کہاں تھے ؟ 

    سوال:

    سوال : ۱)ایک بندے نے مجھ سے سوال کیا کہ جب اللہ نے یہ کائنات بنائی تو اللہ اس وقت کہاں تھے ؟ ہمارے علاقے میں بے دینی اور بد دینی بھی زیادہ ہے اس لئے بھی اس سوال کا جواب چاہیے تھا تا کہ لوگوں کے اعتراضات دفع ہو سکے ۔ ۲) ہمارے علاقے میں ایک آدمی ہے شاہد نام کا۔وہ پہلے ہندو تھا لیکن لگ بھگ پندرہ سال پہلے مسلمان ہوگیا۔لیکن مسلمان ہونے کے بعد بھی اس کے حالات نہیں سدھرے اور اس نے شراب پینا اور دوسرے برے کام نہیں چھوڑے ۔ اب پندرہ دن پہلے اس کی بیوی کے اور عام لوگوں کے کہنے پر اس نے سب چیزوں سے توبہ کی اور ہمارے ساتھ جماعت میں تین دن بھی لگایا۔ اس کا کہنا ہے کہ جماعت میں دوسری رات جب وہ سویا تو اس نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر اسے مطلوب تھی۔ خواب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑی پیلی پہاڑی میں چکر لگا رہا ہے اور اس پہاڑی میں بہت بڑے الفاظ میں اللہ لکھا ہوا ہے ۔ اور تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھ کھلتی ہے تو فجر کی اذان کا وقت ہو گیا ہوتا ھے ۔ ہمارا علاقہ بھی پہاڑی علاقہ ہے ۔ بندے کے سوالات کے جوابات دے کر شکریہ کا موقع دیں ۔ شکرا جزیلا

    جواب نمبر: 603356

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:656-108/L=9/1442

     بعض روایات سے اس طرح کا مضون ثابت ہے کہ ایک صحابی جن کا نام ابو رزین  تھا انھوں نے نبی پاک ﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے پرور دگار اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں پر تھے؟ تو اس کا جواب دیتے ہوے نبی پاک ﷺ نے فرمایا اللہ رب العزت کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے عماء( بادل )میں تھے جس کے اوپر نیچے دونوں طرف ہوا تھی، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کی کیا حقیقت تھی ؟ تو اس سلسلے میں محدثین کی مختلف رائیں ہیں بعض محدثین کا کہنا ہے کہ باد ل کے ذریعہ کنایہ ہے حجاب جلالی سے جس کی کیفیت وحقیقت کا بنو آدم کی عقلیں ادراک نہیں کرسکتیں۔جہاں تک خواب کا مسئلہ ہے تو وہ مبارک ہے، اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے ترقی درجات کی امید ہے ۔

    ”عَنْ أَبِی رَزِینٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیْنَ کَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ خَلْقَہُ؟ قَالَ: " کَانَ فِی عَمَاءٍ، مَا تَحْتَہُ ہَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَہُ ہَوَاءٌ، وَخَلَقَ عَرْشَہُ عَلَی الْمَاءِ“ "․ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ: قَالَ یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ: الْعَمَاءُ أَیْ: لَیْسَ مَعَہُ شَیْءٌ․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 9/ 3660) وَقَدْ رَوَی التِّرْمِذِیّ وَالْبَیْہَقِیّ مِنْ حَدِیث حَمَّاد بْن سَلَمَة عَنْ یَعْلَی بْن عَطَاء عَنْ وَکِیع بْن عُدُس عَنْ أَبِی رَزِین الْعُقَیْلِیّ قَالَ قُلْت یَا رَسُول اللَّہ أَیْنَ کَانَ رَبّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَبْل أَنْ یَخْلُق السَّمَاوَات وَالْأَرْض قَالَ کَانَ فِی عَمَاء مَا فَوْقہ ہَوَاء وَمَا تَحْتہ ہَوَاء ثُمَّ خَلَقَ الْعَرْش ثُمَّ اِسْتَوَی عَلَیْہِ ہَذَا لَفْظ الْبَیْہَقِیِّ وَہَذَا الْإِسْنَاد صَحَّحَہُ التِّرْمِذِیّ فِی مَوْضِع وَحَسَّنَہُ فِی مَوْضِع(عون المعبود وحاشیة ابن القیم 13/ 16) وَلَا شَکَّ أَنَّ وَاحِدًا مِنْ ہَذِہِ الْمَعَانِی لَا یُنَاسِبُ الْمَقَامَ التِّبْیَانِیَ إِلَّا أَنْ یُقَالَ: إِنَّ السَّحَابَ کِنَایَةٌ عَنْ حِجَابِ الْجَلَالِ، وَہُوَ عِبَارَةٌ عَنْ حِجَابِ الذَّاتِ الْبَاعِثِ عَلَی سِرِّ الصِّفَاتِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِالْعَلَوِیَّاتِ وَالسَّلَفِیَّاتِ، وَلِذَا قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ: لَا یَدْرِی أَحَدٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ کَیْفَ کَانَ ذَلِکَ الْعَمَاءُ، وَفِی رِوَایَةٍ: عَمَی بِالْقِصَرِ، وَہُوَ ذَہَابُ الْبَصَرِ، فَقِیلَ: ہُوَ کُلُّ أَمْرٍ لَا تُدَارِکُہُ عُقُولُ بَنِی آدَمَ، وَلَا یَبْلُغُ کُنْہَہُ الْوَصْفُ، وَلَا یُدْرِکُہُ الْفَطِنُ․ قَالَ الْأَزْہَرِیُّ: نَحْنُ نُؤْمِنُ بِہِ وَلَا نُکَیِّفُہُ بِصِفَةٍ أَیْ نُجْرِی اللَّفْظَ عَلَی مَا جَاءَ عَلَیْہِ مِنْ غَیْرِ تَأْوِیلٍ مَعَ التَّنْزِیہِ عَمَّا لَا یَجُوزُ عَلَیْہِ مِنَ الْحُدُوثِ وَالتَّبْدِیلِ․ (مَا تَحْتَہُ ہَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَہُ ہَوَاءٌ): مَا: نَافِیَةٌ فِیہِمَا، وَفِیہِ إِشَارَةٌ إِلَی مَا سَبَقَ فِی الْحَدِیثِ کَانَ اللَّہُ وَلَمْ یَکُنْ مَعَہُ شَیْءٌ․ قَالَ الْقَاضِی: الْمُرَادُ بِالْعَمَاءِ مَا لَا تَقْبَلُہُ الْأَوْہَامُ وَلَا تُدْرِکُہُ الْعُقُولُ وَالْأَفْہَامُ، عَبَّرَ عَنْ عَدَمِ الْمَکَانِ بِمَا لَا یُدْرَکُ وَلَا یُتَوَہَّمُ، وَعَنْ عَدَمِ مَا یَحْوِیہِ وَیُحِیطُ بِہِ الْہَوَاءُ، فَإِنَّہُ یُطْلَقُ وَیُرَادُ بِہِ الْخَلَاءُ الَّذِی ہُوَ عِبَارَةٌ عَنْ عَدَمِ الْجِسْمِ، لِیَکُونَ أَقْرَبَ إِلَی فَہْمِ السَّامِعِ، وَیَدُلُّ عَلَیْہِ أَنَّ السُّؤَالَ کَانَ عَمَّا خُلِقَ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ خَلْقَہُ فَلَوْ کَانَ الْعَمَاءُ أَمْرًا مَوْجُودًا لَکَانَ مَخْلُوقًا، إِذْ مَا مِنْ شَیْءٍ سِوَاہُ إِلَّا وَہُوَ مَخْلُوقٌ خَلَقَہُ وَأَبْدَعَہُ، فَلَمْ یَکُنِ الْجَوَابُ طِبْقَ السُّؤَالِ، وَاللَّہُ تَعَالَی أَعْلَمُ بِالْحَالِ․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 9/ 3661)

    (نوٹ)ایک عام آدمی کو پیش آمدہ مسائل میں صرف حلت وحرمت کے بارے میں سوال کرنا چاہئے عام آدمی کو اللہ رب العزت کی ذات سے متعلق اس طرح کے سوالا ت کرنے سے احتیاط کرنی چاہئے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند