عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 152741
جواب نمبر: 152741
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 668-1164/sn=11/1438
”علمِ غیب“ کلی طریقے پر کہ کوئی ذرہ مخفی نہ رہے؛ بلکہ ہرشئ ہروقت سامنے ہو ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، ہرجگہ حاضر وناظر اور ہرشئ سے باخبر ہونا اسی کی صفتِ خاصہ ہے، بہ شمول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی اس صفت میں شریک نہیں؛ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ذات وصفاتِ باری تعالیٰ کا علم تمام مخلوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ عطا ہوا ہے، نیز اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کو کبھی کبھی بعض اشیائے مغیبہ کا علم ”وحی“ کے ذریعے عطا فرمادیتے ہیں؛ مگر وہ جزئی ہے، کلی نہیں ہے، قرآنِ کریم کی بہت سی آیات سے یہ بات ثابت ہے، مثلاً:
(الف) قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللَّہُ (سورہٴ نمل: ۱۵)
(ب) وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ (الأنعام: ۵۹)
(ج) وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ (الأعراف: ۱۸۸)
(د) وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَجْتَبِی مِنْ رُسُلِہِ مَنْ یَشَاءُ (آل عمران: ۱۷۹)
مزید تفصیل کے لیے ”فتاوی محمودیہ“ جلد اول اور معارف القرآن سے مذکورہ بالا آیات کی تشریحات کا مطالعہ فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند