• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 51918

    عنوان: کیا دین کا وہ حصہ جو احادیث اور سنت کی شکل میں موجود ہے محفوظ ہے جیسے قرآن محفوظ ہے؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ کیا دین کا وہ حصہ جو احادیث اور سنت کی شکل میں موجود ہے محفوظ ہے جیسے قرآن محفوظ ہے؟ مجھے ایک عالم نے بتایا ، وہ عالم بھی ہے اور اسلام انٹرنیشنل یونیورسٹی میں حدیث میں پی ایچ ڈی کررہا ہے، کہ جب چگنیز خان اورہلاکو خان نے عراق پر حملہ کیا تو اس نے حدیث کی کافی کتابیں جلادی تھیں جس کی وجہ سے دین کے کافی مسائل کا حل نہیں ملتاجو کہ حدیث میں تھاجیسے غلاموں کے دینی مسائل جس سے اشکال یہ آتاہے کہ کہیں دین کا کوئی حصہ جس کی رہنمائی حدیث سے ملنی تھی ضائع تو نہیں ہوگیا؟

    جواب نمبر: 51918

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 932-630/L=7/1435-U دین کا وہ حصہ جو احادیث اور سنت کی شکل میں ہے، وہ اسی طرح محفوظ ہے، جیسے قرآن کریم؛ اس لیے کہ ”حدیث“ اور ”سنت“ الگ سے کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ یہ قرآن کریم کے اجمالی تفصیل، اور مغلقات کی وضاحت، اور ابہام کی تشریح ہے، اس لیے اللہ رب العزت کا فرمان: ”اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ“قرآن اور سنت نبویہ دونوں کی حفاظت کو شامل ہے۔ دین اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے، جس میں زندگی کے ہرہرگوشہ اور شوشہ کا حل ملتا ہے، چنانچہ غلاموں کے مسائل کا بھی تفصیلی حل حدیث، اور فقہ کی کتابوں میں مفصل مدون ہے۔ دین کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ اللہ رب العزت نے لی ہے؛ اس لیے دین کے ضیاع کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، محض ظن اور تخمین کی بنیاد پر ضائع ہونے کا قول درست نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عالم صاحب نے کہیں سے حافظ ابن حجر کا یہ مقولہ پڑھ لیا ہے: ”قال السیوطي: وقد بلغني أن الحافظ ابن حجرسئل عن ہذہ الأحادیث التي یوردہا أئمتنا -الشافعیة- والأئمة -الحنفیة- محتجین بہا، ولا تعرف في کتب الحدیث؟ فأجاب بأن کثیرا من کتب الحدیث أو الأکثر عنہا، عُدم في بلاد الشرق في الفتن، فلعل تلک الأحادیث مخرجة منہا، ولم تصل إلینا“ اھ (المسلک الوسط الداني إلی الدر الملتقط للصغاني“ نقلا عن ”الشافي العي عن مسئلة الشافعي“ کما في أثر الحدیث الشریف للشیخ محمد عوامہ، ص: ۲۱۴) لیکن اس طرح کی بات اولاً تو دیگر دلائل قویہ کی روشنی میں قابل اعتبار نہیں، یا یہ موٴول ہے، چنانچہ شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ”اثر الحدیث الشریف: ص ۲۱۴“ میں اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد اس پر طویل مناقشہ کیا ہے، جسے ضرورت ہو وہ وہاں دیکھ لے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند