• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 603310

    عنوان:

    دوا تاجر کا ڈاکٹر کو کمیشن دینا

    سوال:

    حضرات مفتیان کرام میں دواؤں کا تاجر ہوں آج سے کوئی تیس سال قبل میرا ایک غیر مسلم ڈاکٹر سے رابطہ ہوا اور ہم دونوں میں یہ معاہدہ ٹھہرا کہ وہ مریضوں کو ہماری دوائیں لکھیں گے گے اور اس کے بدلے میں میں ان کے کاروبار، انکم ٹیکس،تعمیر گھریلو خرچہ وغیرہ یہ سارے امور اپنی طرف سے انجام دوں گا جس کی وہ کوئی رقم مجھے نہیں دیں گے توکیا میرا ان سے معاہدہ ٹھیک ہے اور دوائیوں کی قیمت میرے لیے حلال ہے ؟ اگر نہیں تو میرے لئے کوئی جائز اور صحیح طریقہ اس معاہدے کو نبھانے کا کا براہ کرم بتا کر مشکور ہوں کیونکہ میرے لئے اس معاہدے سے بالکل ہٹ جانا تقریباً ناممکن کے درجے میں ہے ، ہاں کچھ اصلاح اگر چاہوں تو کر سکتا ہوں ہو براہ کرم مدلل جواب دیں ۔

    جواب نمبر: 603310

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:616-208/Tsn=8/1442

     جب کوئی مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور ڈاکٹر فیس کی بنیاد پر اسے صلاح دیتا ہے تو اس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ مریض کے حق میں جو مناسب دوا ہو، وہ لکھے؛ لہذا ڈاکٹر کے لئے کسی خاص کمپنی کی دوا لکھ کر اس پر کمپنی سے فوائد حاصل کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ دوا تاجر کے حق میں ڈاکٹر کی طرف سے کوئی عمل نہیں پایا جارہا ہے، اور دوا تاجر کے لئے بھی رقم وغیرہ دینا درست نہیں ہے، یہ مثل رشوت ہے؛ اس لئے صورت مسئولہ میں فروخت کردہ دواؤں کی قیمت تو آپ کے حق میں حلال ہوگی؛ لیکن آپ ڈاکٹر کو رقم وغیرہ (جو بہ حکم رشوت ہے) پیش کرنے (خواہ کسی بھی شکل میں ہو) کے گناہ کے مرتکب ہوں گے؛ اس لئے آپ اس سے حتی المقدوربچنے کی کوشش کریں، اگر آپ ڈاکٹر کے ساتھ دوا لکھنے کے معاہدے کے بہ جائے، فروختگی کا معاملہ کرلیں یعنی ان کے ہاتھ دوائیں فروخت کردیں (اگرچہ عام ریٹ سے کم میں ہو) اور ڈاکٹر آپ کو طے شدہ قیمت اداکردیا کریں تو پھر آپ اس محظور سے بچ سکتے ہیں۔ نوٹ: اس محظور سے بچنے کے لئے اگر آپ کوکچھ تدبیریں سمجھ میں آئیں توانھیں لکھنے پر مزید غور کیا جاسکتا ہے۔) دیکھیں: امداد الفتاوی، 3/410، کتاب الاجارة، سوال:413، مطبوعہ: مکتبہ دارالعلوم کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند