• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 67076

    عنوان: فلم اسٹوری لكھ كر پیسے كمانا كیسا ہے؟

    سوال: میں ایک رائٹر ہوں ، اسٹوری وغیرہ لکھتاہوں ۔ اس اسٹوری سے اگر کوئی فلم بنائے اور وہ لوگ مجھے اس کے لیے پیسہ دے تو وہ مال حرا م ہوگا یا حلال؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 67076

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1197-1285/N=11/1437 فلم کی اسٹوری بنانا اور اس کا پیسہ لینا ناجائز ہے، یہ ناجائز ذریعہ آمدنی ہے، قال اللہ تعالی: إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة، واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت: ۱۹) ، وقال أیضاً في مقام آخر: ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة (سورہ لقمان، آیت: ۶) ، وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱) : وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي، ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛ بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ، قال الزیلعي في تبیین الحقائق (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة ۵: ۲۲۵، ط: مکتبة إمدادیة، ملتان، باکستان) : قال رحمہ اللہ : ”ولا یجوز علی الغناء والنوح والملاھي “ : لأن المعصیة لا یتصور استحقاقھا بالعقد فلا یجب علیہ الأجر من غیر أن یستحق ھو علی الأجیر، ……، وإن أعطاہ الأجر وقبضہ لا یحل لہ، ویجب علیہ ردہ علی صاحبہ اھ، ومثلہ فی الدر والرد ( کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة ۹: ۷۵، ۷۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، معارف القرآن (۷: ۲۰، ۲۱ مطبوعہ: ربانی بک ڈپو، دہلی) میں ہے: جمہور صحابہ وتابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لیے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے، اس میں غناء، مزامیر بھی داخل ہے اور بیہودہ قصے کہانیاں بھی، امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے ، اس میں فرمایا ہے کہ لہو الحدیث ھو الغناء وأشباھہ ، یعنی: لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی : جو چیزیں اللہ کی عبادت سے غافل کردیں) ، اور سنن بیہقی میں ہے: اشتراء لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے والے مرد یا عورت کو خریدنا یا اس کے امثال ایسی بیہودہ چیزوں کو خریدنا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کریں، ابن جریر نے بھی اسی عام معنی کو اختیار فرمایا ہے (روح ملخصاً) ، اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی یہی عموم ثابت ہوتا ہے ، جس میں آں حضرت کا یہ ارشاد ہے کہ گانے والی لونڈیوں کی تجارت نہ کرو اور پھر فرمایا کہ وفي مثل ھذا أنزلت ھذہ الآیة ومن الناس یشتری الخ انتہی، آپ کے مسائل اور ان کا حل (جدید تخریج شدہ ۸: ۵۰۲مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) میں ہے: سوال: کیا افسانہ وغیرہ لکھنا گناہ ہے؟ جواب: ۔ جی ہاں! گناہ ہے اور بے فائدہ بھی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند