• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 37512

    عنوان: اگر بینک کی نوکری حرام ہے تو علماء اپنا اکاوَنٹ بنک میں کیوں رکھتے ہیں؟

    سوال: اگر بینک کی نوکری حرام ہے تو علماء اپنا اکاوَنٹ بنک میں کیوں رکھتے ہیں؟

    جواب نمبر: 37512

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 398=328-3/1433 بینک میں وہ نوکری حرام ہے جس میں سودی حساب وکتاب لکھنے دیکھنے، چیک کرنے، اور لینے دینے کا کام کرنا پڑتا ہو، اگر کوئی پہرہ دار ہے، چپراسی ہے، تعمیرات کا، فرنیچر کا کام کوئی کرتا ہے تو اس کے لیے گنجائش ہے، اگرچہ بہتر نہیں ہے۔ رہا مسئلہ بینک میں پیسوں کے جمع کرنے کا تو اس کی اجازت علماء نے محض اس لیے دی ہے کہ آج کے دور میں چوری، ڈکیتی، بے ایمانی بداعتمادی اس درجہ بڑھ گئی ہے کسی کے باس بھی امانت رکھنا مشکل اور انتہائی دشوار ہوگیا ہے اس مجبوری کی وجہ سے صرف بغرض حفاظت بینک میں جمع کرنے کی اجازت ہے ”الضرورات تبیح المحظورات“ سود لینے کی نیت سے بینک میں جمع کرنا اب بھی حرام وناجائز ہی کا حکم ہے۔ حفاظت کے لیے رکھنے میں جو سود ملے اس کو بلانیت ثواب غریبوں محتاجوں کو صدقہ کردینا ضروری ہے، اسے اپنے استعمال میں لانا ہرگز جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند