• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 169180

    عنوان: ڈیوٹی كے دوران خالی اوقات میں ذاتی كام كرنا؟

    سوال: عرض یہ ہے کہ میں جس ادارے میں جاب کرتی ہوں اس میں ملازمت کے اوقات 9 سے 6 تک ہیں۔ شروع میں کام بھی مناسب چلتا تھا اور اسٹاف بھی زیادہ تھا۔ اس لیے کمپنی والے ٹائم کی پابندی کرواتے تھے ۔ آہستہ آہستہ کام کم ہوتا گیا اور اسٹاف بھی کم ہو گیا۔ اب آفس میں صرف 4 افراد رہ گئے ہیں۔ جن میں سے ا یک میرے باس ہیں جودیر سے آفس آتے تھے اور اب اپنی بیماری کی وجہ سے آفس نہیں آرہے ۔میں اپنے آفس میں اکیلی خاتون ورکر ہوں اور میرے ذمہ متفرق کام ہیں ۔ ان سارے کاموں کی انجام دہی کے باوجود میرے پاس کافی وقت بچ جاتا ہے ۔ اس فارغ وقت کو میں انٹر نیٹ پر دینی و معلوماتی کتابیں پڑھنے اور علماء کے بیانا ت سننے اورکچھ ذاتی کاموں میں صرف کرتی ہوں ۔ جس کی میں نے اپنے باس سے باقاعدہ اجازت تو نہیں لی ہے مگر مجھے گمان ہے کہ وہ ان سب سے مجھے منع نہیں کریں گے ۔ کیونکہ اسطرح میرا فارغ وقت مفید اور معلوماتی کامو ں میں صرف ہوتا ہے ۔ جس سے کمپنی کے کاموں میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتااور میرے باس کو بھی اس بات کا اندازہ ہے ۔ میرے ایڈمن مینیجر کو میرے معمولات کا علم ہے اور و ہ میرے باس کے بھاء بھی ہیں اور باس نے انہیں آفس کے معاملات سنبھالنے کا اختیار دیا ہوا ہے ۔ کیا میرے لیے ایسا کرنا درست ہے ۔ میری آمدنی اس وجہ سے حرام تو نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ میرے باس کومیرے کاموں کی انجام دہی کی طرف سے اطمینان ہے ۔ مگر میرے دل میں کچھ کھٹکا سا رہتا ہے کہ میں نے چونکہ باقاعدہ اجازت نہیں لی ہے اس لیے آفس کے سارے کاموں کے علاوہ دیگر کامو ں میں جو وقت لگا ہے اس کی آمدنی لینا شاید جائز نہ ہو۔ اگر میری تنخواہ کا اتنا حصہ حلال نہیں تھا تو اس کی تلافی کی کیا صور ت ہے ۔؟ میں آمدنی کا اتنا حصہ صدقہ نہیں کر سکتی۔ اور اگر میں اپنے باس کو اپنے معمولات سے آگاہ کر کے معافی مانگ لوں اور وہ راضی ہو جائیں تو پھر کیا میری آمدنی حلال ہو جائی گی؟ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے سے بھی میرا قصور معاف ہو جائے گا۔ میری اس پریشانی کاتسلی بخش جواب عنایت فر مائیں۔ جزا ک اللہ۔

    جواب نمبر: 169180

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:912-79T/sd=11/1440

    اگردیانت داری کے ساتھ امور مفوضہ انجام دینے کے باوجود آپ کے پاس وقت بچ جاتا ہے اور کمپنی کے مالک کی طرف سے صراحتاً یا دلالة خالی اوقات میں ذاتی نوعیت کے کام کی اجازت ہوتی ہے تو آپ خالی اوقات میں ذاتی کام کرسکتی ہیں، اس کی وجہ سے آپ کی تنخواہ کا ایک حصہ حرام نہیں ہوگا، تاہم بہتر یہ ہے کہ آپ ادارہ کے ذمہ دار کو مطلع کرکے صراحتا اجازت حاصل کرلیں، یا تو وہ آپ کو کوئی اور کام سپرد کردیں گے یا خالی وقت میں ذاتی کام کی اجازت دیدیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند