• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 605942

    عنوان:

    حج کس پر فرض ہوتا ہے؟

    سوال:

    سوال : ہمارے یہاں علماء بتاتے ہیں کہ جس آدمی کے پاس 3.5-4 لاکھ روپیہ ہے اور جیتنے دن کو حج کے لیے جا رہا ہے تو گھر والوں کے لیے اتنے دن کا ضروریات پورا کر کے جا سکے اس پر حج فرض ہوتا ہے میں یہ جاننا چاہتا ہو ں کہ یہ جو 3.5-4 لاکھ روپے ہے صرف نقد ہے یہ سونا۔چاندی۔تجارتی سامان ۔ضرورت سے زائد سامان پانچوں کو ملاکر ہے یہ صرف نقد ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 605942

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:17-46/N=2/1443

     حج کی قدرت واستطاعت میں نقد کے ساتھ سونا، چاندی، تجارتی مال اور حوائج اصلیہ سے زائد سامان کی مالیت بھی شمار ہوتی ہے ؛ البتہ اگر کسی کے گھر کا گذربسر صرف کاروبار کی آمدنی پر ہو تو اُس کے اور اہل وعیال کے گذارے کے بہ قدر آمدنی جتنے کاروبار سے حاصل کرسکے ، اُس کی پونجی مستثنیٰ ہوگی، اسی طرح پیسہ کی جو مقدار کسی اہم وبنیادی ضرورت کے لیے رکھی ہو، وہ بھی مستثنیٰ ہوگی، جیسے: پنکھا، فریج وغیرہ۔

    (فضلاً عما لا بد منہ) کما مر في الزکاة، ومنہ المسکن ومرمتہ ولو کبیراً یمکنہ الاستغناء ببعضہ والحج بالفاضل؛ فإنہ لا یلزمہ بیع الزائد، نعم ھو الأفضل، وعلم بہ عدم لزوم بیع الکل والاکتفاء بسکنی الإجارة بالأولی، وکذا لو کان عندہ ما لو اشتري بہ مسکناً وخادماً لا یبقی بعدہ ما یکفي للحج لا یلزمہ، خلاصة، وحرر في النھر أنہ یشترط بقاء راس مال لحرفتہ إن احتاجت لذلک وإلا لا۔(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۶۰، ۴۶۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۶: ۴۷۴ - ۴۷۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”یشترط بقاء رأس مال لحرفتہ“: کتاجر ودھقان ومزارع کما في الخلاصة، ورأس مال یختلف باختلاف الناس، بحر، والمراد ما یمکنہ الاکتساب بہ قدر کفایتہ وکفایة عیالہ لا أکثر؛ لأنہ لا نھایة لہ۔ (رد المحتار)۔

    فاضلاً عن عن حوائجہ الأصلیة المذکورة في الزکاة کمسکنہ وعبید خدمتہ وفرسہ المحتاج إلی رکوبہ ولو أحیانا، وسلاحہ إن کان من أہلہ، وآلات حرفتہ إن کان محترفا، وکتب الفقہ إن کان فقیہا محتاجا إلی استعمالہا، وثیاب لبسہ وأثاث بیتہ ومرمة مسکنہ، ورأس مال حرفتہ إن احتاجت لذلک، وآلات حرثہ من البقر ونحو ذلک إن کان حراثا أکارا، و رأس مال التجارة إن کان تاجرا یعیش بالتجارة، والمراد ما یمکنہ الاکتساب بہ قدر کفایتہ وکفایة عیالہ لاأکثر؛ لأنہ لا نہایة لہ (رد المحتار) (غنیة الناسک، ص: ۳۷، ط: جدید محقق، باکستان)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند