متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 150368
جواب نمبر: 150368
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 759-722/N=7/1438
پرائز بانڈ میں قرعہ نکلنے پر انعام کے نام سے جو زائد رقم دی جاتی ہے، وہ شریعت کی روشنی میں خالصتاً سود اور حرام ہے؛ کیوں کہ پرائز بانڈز میں جمع کردہ رقم پر سود چڑھتا ہے جو قرعہ اندازی کے ذریعے قمار (جوے) کے طریقہ پر تقسیم کیا جاتا ہے ،اور مذہب اسلام میں سود وقمار دونوں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں ؛ اس لیے آپ کو انعام کے نام سے اصل جمع کردہ رقم پر جو زائد رقم ملی ہے، وہ حرام ہے، وہ آپ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں یا (پاکستان میں) پرائز بانڈز جاری کرنے والے ادارے کو ہی واپس کردیں۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (سورة البقرة، رقم الآیة:۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (سورةالمائدة، رقم الآیة:۹۰)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾، أي بالحرام، یعني بالربا والقمار والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (المصدر السابق،ص: ۵۵۳)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء…،قال:والظاھر أن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند