• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 179766

    عنوان: كسی كمپنی كے لیے قابل بندہ ڈھونڈنے كے پیسے لینا؟

    سوال:

    محترم علماء کرام ۔ ملاحظہ فرمائیں کہ زیدایک کمپنی میں کام کرتا ہے جو کہ کنٹریکٹر کمپنی ہے اور بکردوسری کمپنی میں جو کہ زید کی کمپنی کی کلائنٹ ہے ۔ زید نے بکر کی کمپنی میں کچھ کام کروانا ہے جو کہ زید کی کمپنی کی ذمہ داری ہے مگر زید کو مارکیٹ سے کوئی قابل بندہ نہیں مل رہا ،چناچہ زید بکر کو یہ کہتا ہے کہ مجھے مارکیٹ سے اِس کام کا ماہر ایک قابِل بندہ ڈھونڈ دو جو کہ تمہاری کمپنی میں میری کمپنی کی طرف سے کچھ کام کر دے اور تم اُن پیسوں میں سے جو کہ کمپنی اُس بندے کو دے ، اپنا طے شدہ حصہ رکھ لو؛ تو کیا بکر کے لئے یہ پیسہ حلال ہو گا؟(حصہ رکھنے کا وہ اس لئے کہہ رہا ہے کیونکہ کام کچھ منفرد ، مشکل اور وقت لینے والا ہے مگر جلدی کروانا ہے )۔ مزید برآں اگر بکر ، زید کو یہ کہے (اُسی کام کے متعلق) کہ میں تمہیں اپنی کمپنی میں کام کے لئے مارکیٹ سے ایک قابل بندہ دیتا ہوں مگر میں اُس کو کی گئی ادائیگی میں اپنا حصہ فلاں تناسب سے لوں گا تو کیا بکر کے لئے یہ پیسہ حلال ہو گا؟جبکہ کام کچھ ایسا ہے کہ نہ ہی زید اور نہ ہی بکر اُس کام کو اپنے طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ زید یہ کام قابل بندہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں کر سکتا جبکہ بکر ، زید کی کمپنی کا کلائنٹ ہے اور کمپنی کے منع کرنے اور پالیسی کی وجہ سے بکر اُس کام کو اپنے طور پر نہیں کر سکتا مگر اُسے بندے کاعلم ہے ۔ مارکیٹ سے انجینئر منگوانا ضروری ہے ۔ یہ دو مختلف قِسم کے حالات ہیں۔ جن میں سے ایک میں زید بکر کو آفر کر رہا ہے جبکہ دوسری حالت میں بکر زید کو آفر کر رہا ہے ۔ آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

    جواب نمبر: 179766

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:19-214/L=3/1442

     مذکورہ بالا صورت میں اگر پہلی صورت میں قابل بندہ ڈھونڈنے کی صورت میں بکراپنی اجرت مقرر کرکے لے لے تو یہ دلالی کی صورت ہوگی اور جائز ہوگی ،اسی طرح اگر دوسرا معاملہ اس طور پر کرلیا جائے کہ کام کا ٹھیکہ بکر کو دیدیا جائے اور اس کو اس کی اجازت دیدی جائے کہ وہ جس سے چاہے اس کو کام کرادے ،پھر بکر کسی لائق بندہ سے وہ کام کرادے اور اس بندہ کو اجرت دینے کے بعد بقیہ رقم خود لے لے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی ۔آپ نے دوسری شکل جو تحریر کی ہے وہ واضح نہیں ؛لیکن مذکورہ بالا طور پر کام کرانے کی صورت میں بکر کے لیے زائد رقم لینے کی گنجائش ہوگی ۔

    قال فی التاتارخانیة: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تو اضعوا علیہ ان فی کل عشرة دنا نیر کذا فذاک حرام علیہم وفی الحاوی سئل محمد بن سلمة عن اجرة السمسار فقال ارجو أنہ لابأس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرة التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائز فجوزوا لحاجة الناس الیہ ۔الخ (شامی : ۵/۵۳، کتاب الاجارة قبل فصل فی ضمان الا جیر) وإن أطلقہ لہ العمل فلہ أن یستأجر من یعملہ؛ لأن المستحق عمل فی ذمتہں ویمکن إیفاوٴہ بنفسہ وبالاستعانة بغیرہ بمنزلة إیفاء الدین․ (ہدایة 281/3 إدارة المعارف، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند