عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 67249
جواب نمبر: 67249
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 967-1039/N=10/1437
اگر آپ کی ملکیت میں نصاب کے بقدر کوئی کرنسی،سونا، چاندی یا مال تجارت میں سے کچھ نہیں ہے اور ماہانہ جو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی ہر مہینہ یا دو چار مہینہ میں ختم ہوجاتی ہے توآپ پر کوئی زکوة واجب نہیں ۔ البتہ آ پ کی بیوی چوں کہ صاحب نصاب ہے؛ اس لیے اس پر ہر سال زکوة واجب ہوگی، پس شادی کی تاریخ (۲/ جنوری ۲۰۱۶ء مطابق ۲۹/ صفر ۱۴۳۵ھ پنجشنبہ) سے یا اس سے پہلے جب سے وہ صاحب نصاب ہوئی ہے، اس پر اس وقت سے اس کے زیورات اور کرنسی کی زکوة واجب ہے، ہر سال اس کے پاس جتنے زیورات اور کرنسی موجود رہے، ان کی موجودہ مالیت کا اندازہ لگاکر کل مالیت کا چالیسواں حصہ ادا کردیا جائے، البتہ اس سال چوں کہ کچھ زیور فروخت کردیا گیا ہے؛ اس لیے سال مکمل ہونے پر جتنا زیور موجود رہے گا، صرف اس کی زکوة واجب ہوگی اور سال کے دوران جو زیور فروخت کردیا گیا، اس کی زکوة واجب نہ ہوگی،اور اگر اب تک کسی سال کی زکوة ادا نہیں کی ہے تو ہر سال گذشتہ سالوں میں واجب ہونے والی زکوة کی الگ سے زکوة واجب نہ ہوگی، پس ہر سال زکوة کا حساب لگانے میں گذشتہ سالوں کی زکوةالگ کرلی جائے۔
نوٹ:۔ پرائز بانڈ میں قرعہ میں نام آنے پر انعام کے نام سے جو رقم دی جاتی ہے، شریعت کی روشنی میں وہ خالصتاً سود ہے؛ کیوں کہ انعامی بانڈز میں جمع کردہ رقم پر سود چڑھتا ہے جو قرعہ اندازی کے ذریعے قمار (جوے) کے طریقہ پر تقسیم کی جاتی ہے،اور مذہب اسلام میں سود وقمار دونوں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں ؛ اس لیے آپ کی بیوی کے پرائز بانڈ میں صرف جمع کردہ رقم جائز ہوگی، مزید ملنے والی رقم جائز نہ ہوگی، وہ (پاکستان میں ) وصول ہی نہ کی جائے۔اور زکوة میں صرف اصل رقم کا حساب لگایا جائے گا؛ کیوں کہ انعام کے نام سے مزید ملنے والی رقم پر زکوة واجب نہ ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند