• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 40189

    عنوان: عشر كی تفصیل

    سوال: (۱) عشر کیا ہے؟(۲) والدصاحب اور دادکے ترکے میں ہمیں کچھ زمین ملی ہے جس کی سینچائی تیس فیصد نہر کے پانی سے اور ستر فیصد ٹیوبیب ویل کے پانی سے ہوتی ہے ۔ ہم نے یہ زمین کچھ کسانوں کو دی ہے جو فصل مکمل ہونے کے بعد زمین کے کرایہ کے طورپر کچھ پیسے دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس فصل /آمدنی پر ہمیں یا کسان کو عشر دینا ہوگا؟(۳) اگر ہاں توکون ادا کرے گا اور کیا شرح ہوگی؟ہم سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، کیا ہم اپنے محتاج رشتہ داروں کو مدد کی غرض سے عشر دے سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 40189

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1328-499/L=9/1433 (۱) عشر زمین کی پیداوار کی زکاة ہے جو کہ فرض ہے، بشرطیکہ وہ زمین عشری ہو جیسا کہ پاکستان کی زمینوں کے بارے میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے جواہر الفقہ ۲/۲۵۲ پر صراحت کی ہے۔ وہو فرض وسببہ الأرض النامیة بالخارج حقیقة (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۸۵) (۲و ۳) مذکورہ زمین کی پیداوار میں نصف عشر واجب ہے اور وہ مستاجر پر ہے۔ ویجب نصفہ في مسقي غرب أو دلو کبیر ودالیة أي دولاب لکثرہ الموٴنة وفي کتب الشافعیة: أو سقاہ بماء اشتراہ وقواعدنا لا تأباہ ولو سقي سبحا وبآلة اعتبر الغالب (شامي: ۳/۲۶۸) والعشر علی الموحد کخراج موظف وقالا علی المستأجر کمستعیر مسلم وبقولہما نأخذ․ وفي الشامی ولو أجر العشریة فالعشر علیہ من الأجرة وعندہما علی المستأجر․․ وفي الشامي بحثا: فإن أمکن أخذ الأجرة کاملة یفتی بقول الإمام وإلا فبقولہما لما یلزم علیہ من الصور الواضح الذي لا یقول بہ أحد واللہ تعالی أعلم․ (شامي: ۳/۲۷۷) (۴) عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکاة کے مصارف ہیں اور سادات کو زکاة دینا جائز نہیں، لہٰذا ان کو عشر دینا بھی جائز نہیں۔ إن ہذہ الصدقات أوساخ الناس وإنہا لا تحل لمحمد ولآل محمد رواہ مسلم (مشکاة: ۱۶۱) وفي الدر المختار تحت قولہ باب المصرف أي مصرف الزکاة والعشر وفي الشامي وہو مصرف أیضًا لصدقة الفطر والکفارة والنذر وغیر ذلک من الصدقات الواجبة․ (شامي: ۳/۲۸۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند