• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600536

    عنوان: تعمیر شدہ مسجد كو ختم كركے تین منزلہ مكان بنالینا ؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ میرا نام خادم حسین ہے میں نے اپنے گھر سے متصل جگہ پر اللہ تعالی کی رضا کے لئے مسجد بنائی تھی اور اس مسجد میں کم و بیش ایک سال تک پانچ وقت اذان کے ساتھ نمازیں باجماعت ادا کی جاتی رہیں پھر میں عرب امارات چلا گیا اور میرے گھر والوں نے میری غیر موجودگی میں مسجد ختم کر کے اس جگہ کو گھر کے استعمال میں لے آئے اور اب اس جگہ پر تین منزلہ رہائشی گھر بن چکا ہے اسی دوران میرا بیٹا ذہنی بیمار ہوگیا اور اہل قرابت طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارا بیٹا اس وجہ سے بیمار ہوا کہ تم نے اللہ تعالٰی کے گھر کو اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کیا ہے پھر میں نے اللہ سے توبہ بھی کی اور اسی قیمت کا ایک پلاٹ اپنے ایک قریبی دوست ملک الیاس کو 2013 میں مسجد بنانے کی غرض سے ٹرانسفر کر دیا تاکہ وہ اس پلاٹ پر مسجد تعمیر کرے ۔ ملک الیاس نے مسجد کو تعمیر کرنے کی غرض سے قانونی تقاضے پورے کرنے شروع کر دیے اور مسجد کی تعمیر کیلئے اجازت کی غرض سے سرکاری این او سی لینے کی کارروائی شروع کر دی جو اب تقریبا سات سال گزرنے پر آخری مراحل میں ہے اور غالب گمان ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے این او سی مل جائے گا اور وہ اس پلاٹ پر اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندی مکتب فکر کی مسجد تعمیر کرنے کے متمنی ہیں۔ مگر میں اب چاہتا ہوں کہ میرا پلاٹ میرے نام پر واپس کر دیا جائے میں اس پر خود مسجد تعمیر کروں گا۔ اور اگر ملک الیاس میرا پلاٹ میرے نام پر واپس نہیں کرتا تو میں مسجد کو بنانے میں ہر رکاوٹ ڈالوں گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی حکم کی وضاحت فرمائیں کہ پہلے سے تعمیر شدہ مسجد کو اپنے گھر میں شامل کرنا اور اس کے متبادل کے طور پر پلاٹ دینا کیا شریعت مطہرہ کی رو سے درست ھے ؟ نیز یہ بھی ارشاد فرما دیں کیا اگر خادم حسین پہلے سے تعمیر شدہ مسجد کو جسے اب وہ گھر کے طور پر استعمال کر رہا ھے اگر دوبارہ مسجد میں تبدیل نہیں کرتا یا اس مسجد کے متبادل پلاٹ پر مسجد کو تعمیر نہیں کرتا تو کیا اس متبادل پلاٹ کو فروخت کر کے دیگر قریبی مسجد کی توسیع میں استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 600536

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:189-26T/L=3/1442

     صورت مسؤلہ میں جب آپ نے رضائے الہی کے لئے اپنے گھر سے متصل زمین پر مسجد بنوائی تھی ،اور اس میں ایک سال تک باقاعدہ پنج وقتہ نماز باجماعت بھی ادا کی گئی تھی تو وہ جگہ ہمیشہ ہمیش کے لئے مسجد کے حکم میں ہوگئی تھی ؛آپ کے امارات چلے جانے کے بعد آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے گھر والوں کا اس جگہ پر تعمیر شدہ مسجد کوختم کرکے تین منزلہ مکان بناکر وہاں پر اپنی رہائش اختیارکرنا جائز نہیں تھا؛ آپ پر ضروری ہے کہ اس گھر کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کروادیاجائے چاہے اس کے لیے آپ کو جو بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے ، اس جگہ پر رہائش کو برقرار رکھنا جائز نہ ہوگا،اور نہ ہی اس کے بدلے میں دوسری زمین دینا کافی ہوگا؛ کیوں کہ وقف شدہ زمین ملکِ خدا ہوتی ہے ، اس میں بیع، ہبہ یا کوئی دوسرا تصرف جو اس نوع کا ہو مثلاً تبادلہ وغیرہ شرعاً جائز نہیں ہوتا۔

    (۲)جہاں تک اس پلاٹ کا تعلق ہے توآپ نے اپنے دوست ملک الیاس کے لئے 2013میں مسئلے سے عدم واقفیت کی بناء پر تبادلہ کے طور پر ٹرانسفر کیا تھا ،تو اس پر وقف کے احکام جاری نہیں ہوں گے ؛ کیونکہ مذکورہ بالا صورت میں تبادلہ جائز ہی نہیں تھا، اس لیے اگر آپ اس پلاٹ کو اپنے دوست ملک الیاس سے واپس لینا چاہیں تو شرعا اس کے لینے کی گنجائش ہوگی ،اور اس پر مسجد بنانا کوئی ضروری نہ ہوگا۔

    (الوقف) ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتہا علی من أحبّ (درمختار) وفی رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ․ (درمختار مع الشامی: /۶ ۵۲۲، ۵۲۱، ط: زکریا)( فاذا تم ولزم لا یملک ولا یعار ولا یرہن)...(لا یملک)ای لا یکون مملوکا لصاحبہ ولا یملک: ای لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ ولا یعار، ولا یرہن لاقتضائہما الملک. (در مختار وحاشیة ابن عابدین(رد المحتار) ۶/ ۳۵/۹ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند