عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 155740
جواب نمبر: 15574031-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:115-98/D=3/1439
اعتکاف کا محل مسجد شرعی ہے، لہٰذا مسجد نبوی اور مسجد حرام میں جو مسجدشرعی کی حدود ہیں وہی اعتکاف کی بھی حدود ہیں۔ نیز مسجد شرعی مسجد کا وہ حصہ جو جماعت کی نماز کے لیے خاص ہو اور وہاں جنبی کا آنا جانا ممنوع وناجائز ہے۔ أما تفسیرہ: فہو اللُّبث في المسجد مع نیة الاعتکاف کذا في النہایة (ہندیة: ۱/ ۳۷۴، ط: اتحاد/ دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے خالی پلاٹ کے بازو میں مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جارہا تھا تو کچھ مہینوں کے لیے مسجد کو میرے پلاٹ پر منتقل کیا گیا۔ کیا میرے پلاٹ پر اذان دی جاسکتی ہے جب تک وہاں مسجد ہے؟ میں نے سنا تھا کہ ایسی صورت میں نماز بالکل ہوسکتی ہے پر اذان مسجد کی اصل جگہ سے ہی پکارنی ہوگی، کیا یہ صحیح ہے؟ برائے مہربانی اس مسئلہ کا حل شریعت کے مطابق کیا ہے ضرور اور جلد سے جلد بتائیں ؟
2769 مناظرقبرستان کی چیزیں یعنی پھل لكڑی وغیرہ استعمال كرنا كیسا ہے؟
8815 مناظرمیرے
محلہ میں سات سو مسلمان ہیں او رایک مسجد ہے۔ ایک امام تھے جنھوں نے پینتیس سال تک
نماز پڑھائی اور محلہ کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ایک نئے
امام مقرر کئے گئے۔ لیکن چند سالوں کے بعد متولی صاحب نے اپنے ایک رشتہ دار کوبطور
امام ثانی کے متعین کردیا۔ اس سے مسجد کے بجٹ پر سالانہ پچاس ہزار روپیہ کا بوجھ
پڑرہا ہے۔حال میں الیکشن ہوا اور ایک نئی کمیٹی او رمتولی متعین کئے گئے۔نئی کمیٹی
او رمتولی اس بات پر راضی ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ہی رکھیں۔ لیکن نیا امام
ضدی ہے اور نکلنے پر تیار نہیں ہے۔ حتی کہ بہت سارے ممبر اس نئے امام سے بیزار
ہیں۔ اب نیا امام مسجد کے کچھ ممبروں کو ساتھ لے کر پریشانی پیدا کررہا ہے اور ایک
جماعت کو دوسرے کے خلاف بھڑکارہا ہے۔ برائے کرم مشورہ دیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ اور
کیا یہ مناسب ہوگا کہ دو اماموں کو بیت المال کی رقم سے رکھنا درست ہوگا؟