معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 59174
جواب نمبر: 5917401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 747-640/D=7/1436-U صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی سے فون پر یہ الفاظ کہنا کہ ”تم خود نہیں آئی․․ اب نہیں آنا، زندگی بھر نہیں آنا“ الفاظ صریح وکنایہ میں سے نہیں ہیں، پس ان الفاظ سے طلاق واقع نہ ہوگی، چنانچہ فتاوی دارالعلوم ج۹ ص۴۲۸ “اب سے کبھی میرے پاس نہ آنا“ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ الفاظ صریح وکنایہ میں سے نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
طلاق کے بارے
میں ایک سوال کرنا تھا کہ شوہر کسی بات پر بیوی سے شرط لگائے کہ اگر تم یہ کام
کروگی تو تم کو طلاق اور بیوی غلطی سے وہی کام کردیتی ہے تو کیا طلاق واقع ہوجائے
گی؟
(۲) دوسری
بات یہ ہے کہ شوہر بھول جاتا ہے کہ اس نے ایک بار طلاق کی نیت کی تھی یا تین بار،
ایسی صورت میں کتنی طلاق واقع ہوں گی اگر ایک طلاق واقع ہوئی تو اس کا کیا ازالہ
ہے، اگر تین ہوئیں تو اس کا کیا ازالہ ہے؟ اور کیا شوہر طلاق کی شرط واپس لے سکتا
ہے؟
ایک مجلس میں تین طلاقوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ ذاکر نائک گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے، میرا سوال ہے کہ کیا ابن تیمیہ بھی گمراہ تھے۔
1825 مناظرمیری چچا زاد بہن کی تین سال پہلے شادی ہوئی۔ لیکن اس کا شوہر اس کی روزی کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ دو سال پہلے اس کا شوہر کام کرنے کے لیے ممبئی گیا۔ ایک مرتبہ وہ میری چچازاد بہن سے ملنے کے لیے آیا۔ اب تقریباً دیڑھ سال سے نہ تو وہ واپس آیا ہے اور نہ ہی اس نے فون پر بات کی ہے۔ پتہ نہیں وہ زندہ ہے یا نہیں، اللہ بہتر جانتا ہے۔ اب میری بہن علیحدگی چاہتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوگاجب کہ وہ غائب ہے؟ برائے کرم میری رہنمائی فرماویں۔
1949 مناظرمیری بہن خلع چاہتی ہے کیوں کہ اس کا شوہر اس سے غلط برتاؤ کرتاہے او روہ شرابی بھی ہے۔ لیکن کسی نے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ شریعت کے آگے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ صرف شوہر کا حق ہے کہ وہ طلاق کہے۔ اس نے یہ کیس کورٹ میں داخل کیا ہے۔ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ اگر مسلم جج خلع کا فیصلہ کرے تو کیا یہ قابل قبول ہوگا یا نہیں؟ برائے کرم ہمیں فوری فتوی دیں۔
2530 مناظراگر کوئی اپنی بیوی کو کسی بات پر کہے کہ چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جاؤ تو کیا اس سے نکاح میں کوئی فرق پڑے گا؟
1525 مناظرمیرا سوال طلاق کے ایک مسئلہ سے متعلق ہے۔ میرے سسر میرے شوہر کو ہر طریقہ سے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ یہ مجھ سے بدتمیزی کرتی ہے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے،کیوں کہ ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ میرے سسر کہتے ہیں کہ شریعت میں باپ کے حکم پر بے وجہ بھی طلاق ہر صورت دینی ہوتی ہے۔ علمائے دین کیا کہتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں (ذرا جلدی جوا ب عنایت فرمائیے گا مہربانی ہوگی) تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: میری شادی کے دو تین ہفتہ کے بعد میرے سسرال والے واپس امریکہ چلے گئے تھے اب سات مہینہ بعد میرے شوہر کے آنے کا ہوا تو اس سے (تین ہفتہ) پہلے میرے سسر پاکستان آگئے۔ دو ہفتے تو صحیح گزرے۔ میرے شوہر کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے میرے سسر نے مجھے بلا کر کہا تمہیں میرے گھر میرا غلام بن کر رہنا ہوگا اور تمہارے بارے میں فیصلہ تمہارا شوہر نہیں بلکہ میں کروں گا۔ وہ میرے شوہر اور میری اچھی بات چیت کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ میں اورمیرا بیٹا ایک ہیں تم کہاں فٹ ہوتی ہو فیصلہ کرکے بتا دو۔ فیصلہ میں نہیں کرسکتی جس پر دوسرے دن مجھے بلا کر کہا کہ تم نے فیصلہ نہیں کیا تم مجھے جوا بدہ ہو میری محکوم ہو وغیرہ۔ جس پر میں نے کہا کہ میرا فیصلہ میرا اللہ کرائے گا میں اس انتظار میں ہوں اور یہ کہ آپ میرے اللہ نہیں ہیں کہ جس کو میں جواب دہ ہوں۔ میری اس بات کو یہ وجہ بناتے ہیں میری بدتمیزی کی۔ پھر غصہ سے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا اور یہ کہ تمہیں طلاق مل جائے گی تمہیں بچے بھی ہوگئے تب بھی طلاق دلواؤں گا ، آدھے گھنٹہ تک مجھے طلاق دلوانے کی باتیں کرتے رہے۔ میرے شوہر کے آنے پر ان کو بھی میری غیر موجودگی میں طلاق کی بات پر لے آئے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے، اس لیے کہا کہ معافی، میری بیوی معافی مانگ لے گی اورمیرے اپنے شوہر کے کہنے پر ان کی خوشی کے لیے غلطی نہ ہونے کے باوجود میں نے معافی مانگی۔ لیکن پھر بھی یہی کہتے ہیں اس کوطلاق دے دو، اور اب مجھے میرے ماں باپ کے گھر میرے سارے سامان کے ساتھ بھجوادیا ہے۔
3336 مناظر