• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 5106

    عنوان:

    میرا سوال طلاق کے ایک مسئلہ سے متعلق ہے۔ میرے سسر میرے شوہر کو ہر طریقہ سے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ یہ مجھ سے بدتمیزی کرتی ہے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے،کیوں کہ ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ میرے سسر کہتے ہیں کہ شریعت میں باپ کے حکم پر بے وجہ بھی طلاق ہر صورت دینی ہوتی ہے۔ علمائے دین کیا کہتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں (ذرا جلدی جوا ب عنایت فرمائیے گا مہربانی ہوگی) تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: میری شادی کے دو تین ہفتہ کے بعد میرے سسرال والے واپس امریکہ چلے گئے تھے اب سات مہینہ بعد میرے شوہر کے آنے کا ہوا تو اس سے (تین ہفتہ) پہلے میرے سسر پاکستان آگئے۔ دو ہفتے تو صحیح گزرے۔ میرے شوہر کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے میرے سسر نے مجھے بلا کر کہا تمہیں میرے گھر میرا غلام بن کر رہنا ہوگا اور تمہارے بارے میں فیصلہ تمہارا شوہر نہیں بلکہ میں کروں گا۔ وہ میرے شوہر اور میری اچھی بات چیت کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ میں اورمیرا بیٹا ایک ہیں تم کہاں فٹ ہوتی ہو فیصلہ کرکے بتا دو۔ فیصلہ میں نہیں کرسکتی جس پر دوسرے دن مجھے بلا کر کہا کہ تم نے فیصلہ نہیں کیا تم مجھے جوا بدہ ہو میری محکوم ہو وغیرہ۔ جس پر میں نے کہا کہ میرا فیصلہ میرا اللہ کرائے گا میں اس انتظار میں ہوں اور یہ کہ آپ میرے اللہ نہیں ہیں کہ جس کو میں جواب دہ ہوں۔ میری اس بات کو یہ وجہ بناتے ہیں میری بدتمیزی کی۔ پھر غصہ سے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا اور یہ کہ تمہیں طلاق مل جائے گی تمہیں بچے بھی ہوگئے تب بھی طلاق دلواؤں گا ، آدھے گھنٹہ تک مجھے طلاق دلوانے کی باتیں کرتے رہے۔ میرے شوہر کے آنے پر ان کو بھی میری غیر موجودگی میں طلاق کی بات پر لے آئے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے، اس لیے کہا کہ معافی، میری بیوی معافی مانگ لے گی اورمیرے اپنے شوہر کے کہنے پر ان کی خوشی کے لیے غلطی نہ ہونے کے باوجود میں نے معافی مانگی۔ لیکن پھر بھی یہی کہتے ہیں اس کوطلاق دے دو، اور اب مجھے میرے ماں باپ کے گھر میرے سارے سامان کے ساتھ بھجوادیا ہے۔  

    سوال:

    میرا سوال طلاق کے ایک مسئلہ سے متعلق ہے۔ میرے سسر میرے شوہر کو ہر طریقہ سے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ یہ مجھ سے بدتمیزی کرتی ہے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے،کیوں کہ ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ میرے سسر کہتے ہیں کہ شریعت میں باپ کے حکم پر بے وجہ بھی طلاق ہر صورت دینی ہوتی ہے۔ علمائے دین کیا کہتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں (ذرا جلدی جوا ب عنایت فرمائیے گا مہربانی ہوگی) تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: میری شادی کے دو تین ہفتہ کے بعد میرے سسرال والے واپس امریکہ چلے گئے تھے اب سات مہینہ بعد میرے شوہر کے آنے کا ہوا تو اس سے (تین ہفتہ) پہلے میرے سسر پاکستان آگئے۔ دو ہفتے تو صحیح گزرے۔ میرے شوہر کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے میرے سسر نے مجھے بلا کر کہا تمہیں میرے گھر میرا غلام بن کر رہنا ہوگا اور تمہارے بارے میں فیصلہ تمہارا شوہر نہیں بلکہ میں کروں گا۔ وہ میرے شوہر اور میری اچھی بات چیت کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ میں اورمیرا بیٹا ایک ہیں تم کہاں فٹ ہوتی ہو فیصلہ کرکے بتا دو۔ فیصلہ میں نہیں کرسکتی جس پر دوسرے دن مجھے بلا کر کہا کہ تم نے فیصلہ نہیں کیا تم مجھے جوا بدہ ہو میری محکوم ہو وغیرہ۔ جس پر میں نے کہا کہ میرا فیصلہ میرا اللہ کرائے گا میں اس انتظار میں ہوں اور یہ کہ آپ میرے اللہ نہیں ہیں کہ جس کو میں جواب دہ ہوں۔ میری اس بات کو یہ وجہ بناتے ہیں میری بدتمیزی کی۔ پھر غصہ سے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا اور یہ کہ تمہیں طلاق مل جائے گی تمہیں بچے بھی ہوگئے تب بھی طلاق دلواؤں گا ، آدھے گھنٹہ تک مجھے طلاق دلوانے کی باتیں کرتے رہے۔ میرے شوہر کے آنے پر ان کو بھی میری غیر موجودگی میں طلاق کی بات پر لے آئے۔ میرے میاں مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے، اس لیے کہا کہ معافی، میری بیوی معافی مانگ لے گی اورمیرے اپنے شوہر کے کہنے پر ان کی خوشی کے لیے غلطی نہ ہونے کے باوجود میں نے معافی مانگی۔ لیکن پھر بھی یہی کہتے ہیں اس کوطلاق دے دو، اور اب مجھے میرے ماں باپ کے گھر میرے سارے سامان کے ساتھ بھجوادیا ہے۔  

    جواب نمبر: 5106

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 788=911/ ب

     

    ازروئے شرع بیوی اپنے شوہر کے گھر سسر کا غلام بن کر نہیں آتی ہے، اسی لیے بیوی پر اپنے سسر کی خدمت واجب نہیں ہے، اگر کرتی ہے شکریہ کی مستحق ہوگی اوریہ اس کا احسان ہوگا اگر نہیں خدمت کرتی ہے تو سسر کو کچھ کہنے سننے کا حق نہیں ہے۔ بیوی کے بارے میں کسی بات کا فیصلہ لینے اور نہ لینے کا حق صرف اور صرف شوہر کا ہے، سسر کو بہو کے بارے میں فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں سسر کابہو سے یہ کہنا کہ میرا غلام بن کر رہنا پڑے گا شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ نیز یہ جانناچاہیے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو بلا وجہ طلاق کا حکم دیتا ہے تو بیٹے پر اس کی تعمیل واجب نہیں ہے لہذا میاں بیوی جب ٹھیک ٹھاک زندگی بسر کررہے ہیں تو پھر زبردستی ان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا باعثِ گناہ ہے اور زبردستی مع سامان گھر بھیج دینا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے لہذا اس سے باز آئیں اور بہو کو ان کے گھر سے مع سامان لاکر ان کے شوہر کے آغوش میں پہونچا دیں اور شریعت کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں ورنہ دنیا و آخرت دونوں جگہ سخت پکڑ ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند