معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 30869
جواب نمبر: 30869
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 638=419-5/1432
(۱) حرام تو نہیں مگر اچھا بھی نہیں بلکہ کراہت سے خالی نہیں اور اندیشہ مذی یا منی کے منھ میں جانے کا ہو تو یہ حرکت ناجائز وگناہ ہے۔ (۲) ایسی تو کوئی صراحت بچہ کے متعلق نہیں۔تاہم اس طرح جماع کرنا بھی آداب کے خلاف اور مکروہ ہے۔ (۳) شوہر ادائے حقوق نہ کرے اور باوجود توجہ دلانے کے ادائیگی آمادہ نہ ہو یا ادائے حقوق سے عاجز ہو یا ایسے فسق وفجور میں مبتلا ہو کہ جن کی وجہ سے بیوی کو ساتھ رہنا دشوار ہو، غرض حسن معاشرت سے گذربسر مشکل ہوجائے اور کوئی صورت نباہ کی نظر نہ آتی ہو اور دونوں کے پورے صحیح صحیح حالات کی تحقیق کرکے صلحاء اور دوچار معاملہ فہم سنجیدہ مزاج اسی نتیجہ پر پہنچے ہوں کہ اب دونوں میں مصالحت اور حسن معاشرت کا کوئی راستہ نہیں تو ایسی صورت میں طلاق کا مطالبہ درست ہے۔ گھریلو معاملات میں ناگوار امور پیش آجانے پر تنہا زوجین یا دونوں میں سے کوئی ایک مطالبہٴ طلاق یا اقدام علی الطلاق کا عزم کرے تو شریعت مطہرہ کی نظر میں یہ قدم سخت مکروہ ہے بلکہ گناہ ہے، زوجین اور ان کے اولیاء کو ان سب امور میں دین اسلام کی ہدایات معلوم کرکے اصلاح کی سعی پوری پوری کرنا لازم ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند