• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 30602

    عنوان: اگرشوہر اپنی بیوی کو بلانیت طلاق کہے کہ میں نے تجھے چھوڑا ۔اور اس نے قسم کھائی میں نے اس سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے طلاق ہوجائے گی ؟ اور سب کچھ ختم ہوجائے گا؟اس نے اللہ اور اس کے رسول کی قسم کھائی ہے کہ میں نے اس جملہ سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ براہ کرم، اس جانب رہنمائی فرمائیں۔ 

    سوال: اگرشوہر اپنی بیوی کو بلانیت طلاق کہے کہ میں نے تجھے چھوڑا ۔اور اس نے قسم کھائی میں نے اس سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے طلاق ہوجائے گی ؟ اور سب کچھ ختم ہوجائے گا؟اس نے اللہ اور اس کے رسول کی قسم کھائی ہے کہ میں نے اس جملہ سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ براہ کرم، اس جانب رہنمائی فرمائیں۔ 

    جواب نمبر: 30602

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):521=156-3/1432

    ”میں نے چھوڑا“ عرفاً اب صریح کے حکم میں مستعمل ہے، اس لیے اس سے بلانیت طلاق واقع ہوجائے گی، اور شوہر کا یہ کہنا کہ ”میں نے اس سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا“ مسموع نہ رہے گا۔ قولہ: سرحتک وہو رہا کردم؛ لأنہ صار صریحًا في العرف علی ما صرح بہ نجم الزاہدي․․․ فإذا قال: رہا کردم، أي سرحتک، یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا (شامي زکریا: ۴/۵۳۰) شوہر نے اس لفظ کے کہنے سے پہلے سابق میں کوئی طلاق نہیں دی تھی اور اس نے یہ جملہ ایک مرتبہ کہا ہے تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، کما مر عن الشامي، عدت کے اندر رجعت کرسکتا ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں، اور بعد انقضائے عدت جدید نکاح کرکے زوجیت میں رکھنے کا مجاز ہوگا، حلالہ کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر شوہر نے ”اس لفظ کے علاوہ اور کوئی لفظ استعمال کیا ہو یا ایک سے زائد مذکورہ الفاظ کہے ہوں تو اس کو دوبارہ لکھ کر حکم معلوم کرلیں۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند