عنوان: طلاق كے سلسلے میں میاں بیوی میں اختلاف
سوال: فرید خان امریکہ میں مقیم 5بچوں کا باپ ہے اور ایک غیر متدین شخص ہے یہاں تک کہ باوجود شادی کہ ایک اور شادی شدہ عورت جو کہ قرائن سے کوٹھے والی لگتی ہے میں ملوث ہے اور اسی عورت کے کہنے پر اس نے اپنی بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ طلاق دی :میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،میں تمھیں طلاق دیتا ہوں ،میں تمھیں طلاق دیتا ہوں
اس وقت پاس دو پولیس والے (جو اس عورت نے اسکی مار کے ڈر سے بلوائے تھے )موجود تھے لیکن وہ اردو نہیں سمجھتے تھے گویا کوئی گواہ موجود نہ تھا اسی بات کا فائدہ اتھاتے ہوئے فرید صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق کی دھمکی دی تھی اوریوں کہاتھاکہ میں طلاق دوں گا
جبکہ عورت۔۔۔۔
جو ایک دیندار خاتون ہے اور شوہر کو اس قسم کے الفاظ ادا کرنے سے بارہا منع کرتی رہی چونکہ اس سے قبل بھی شوہر نے ایک طلاق رجعی دی تھی جسکا مسئلہ دارالافتاء لال مسجد سے معلوم کیا گیاتو مفتی صاحب نے فرمایا ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی آئندہ آپ لوگ احتیاط سے کام لیں
اس بات کی مدعیہ ہے کہ شوہر نے مجھے واضح الفاظ میں مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ طلاق دی۔ اور انکے نزدیک طلاق کا مقام ایک گالی سے زیادہ نہیں کیونکہ شوہر کی ھمشیرہ اور اسکی ماں باوجود طلاق کے اپنے خاوند کے ساتھ زندگیاں گزارتی رہیں،
شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں
جواب نمبر: 5267301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 788-798/N=7/1435-U
صورت مسئولہ میں اگر عورت کے پاس شوہر کے تین طلاق دینے پر شرعی گواہ نہیں ہیں اور شوہر منکر ہے تو عورت کے لیے قاضی کے یہاں طلاق کا اثبات ممکن نہیں، البتہ جب اس نے براہ راست اپنے کانوں سے شوہر کی زبانی تین طلاق کے الفاظ سنے ہیں تو بلاشبہ اس پر ضروری ہے کہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے اورشوہر سے بالکل الگ تھلگ رہے، ہرگز اس کے ساتھ بیوی کی حیثیت سے رہ کر اسے اپنے اوپر قابو نہ دے، ”المرأة کالقاضي إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا حیل لہا تمکینہ“
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند