معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 53948
جواب نمبر: 53948
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1169-1163/N=9/1435-U شخص مذکور نے زبان سے جو الفاظ کہے ہیں یعنی: ”صحیح ہے“ یا ”ٹھیک ہے“ یا ”ہاں“ وہ جب تک دل میں آئے ہوئے الفاظ کے ساتھ نہ جوڑے جائیں مہمل وبے معنی ہیں اور ان میں طلاق کا مفہوم نہیں پایا جاتا اور دل میں طلاق کے الفاظ آنے سے کسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر وہ کام اسی طرح ہوگیا جس طرح آدمی چاہتا تھا تب بھی اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، ”وأما الطلاق والعتاق فلا یقعان بالنیة بل لابد من التلفظ“ (الأشباہ والنظائر لابن نجیم مع شرح الحموی ۱:۱۷۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، ”حتی لو أجری الطلاق علی قلبہ وحرّک لسانہ من غیر تلفظ یسمع لا یقع وإن صحح الحروف“ (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ص۲۱۹ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، ”قولہ“: حتی لو أجری“: إنما ذکرہ لأنہ محلّ الوہم فإذا لم یجرہ علی قلبہ، والمسئلة بحالہا فعدم الوقوع أولی“ (حاشیة الطحطاوي علی المراقي)، البتہ اگر کسی دوسرے شخص نے وہ الفاظ کہے جو شخص مذکور کے دل میں آئے یعنی: اگر یہ کام اس طرح ہوجائے تو تجھ پر تیری بیوی پر طلاق اور شخص مذکور نے جواب میں کہا: ”صحیح ہے، یا ”ٹھیک ہے“ یا ”ہاں“ تو اس صورت میں اس کا جملہ مہمل وبے معنی نہیں؛ بلکہ طلاق کا مفہوم رکھتا ہے؛ لہٰذا اس صورت میں اگر شرط پائی گئی تو شخص مذکور کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، الحاصل یہ الفاظ کلام ملفوظ کے ساتھ مربوط ہوسکتے ہیں، کلام منوی کے ساتھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند